اس وقت عالمی سیاست اور ابلاغیات کا سب سے بڑا موضوع شام اور عراق میں ڈرامائی انداز میں فتوحات کے جھنڈے گاڑنے والی شدت پسند تنظیم ‘دولت اسلامی عراق وشام’ داعش کے خطرات اور اس سے نمٹنے کے لیے کارروائی ہے لیکن دوسری جانب خود داعش نے طویل جنگ کی حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ “نکاح بالجہاد” کی اصطلاح بھی داعش ہی کی متعارف کردہ ہے جس میں دنیا بھر سے متشدد خیالات رکھنے والی دوشیزائیں شام اور عراق میں سرگرم جہادیوں کے ساتھ نکاح کے لیے طویل مسافت طے کر کے ان ملکوں میں پہنچ رہی ہیں۔
معاملہ صرف عسکریت پسندوں کے ساتھ نکاح یا ان کی میدان جنگ میں جنسی ضروریات پوری کرنے تک محدود نہیں بلکہ جہادی خواتین اس لیے جنگجوؤں سے شادیاں رچا رہی ہیں
تاکہ ایک نئی ‘جہادی نسل’ تیار کی جا سکے جو آنے والے وقتوں میں داعش کے خود ساختہ “غلبہ اسلام” کے مشن کو آگے بڑھا سکے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق شام اور عراق میں جنگجوؤں کی فتوحات کے ساتھ ہی مغربی ملکوں، عرب اور کچھ دوسرے مسلمان ممالک کی جانب خواتین کی خفیہ ھجرت اور داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ شادی کی خبریں کئی ماہ سے ذرائع ابلاغ میں آ رہی ہیں لیکن ان خبروں میں پیش رفت یہ ہوئی کہ داعش اپنے مقاصد اور جنگ کو نئی نسل تک منتقل کرنے کے لیے “جہادی نسل” تیار کرنے لگی ہے۔
برطانوی اخبار”گارڈین” نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں داعش کی جہادی نسل سے متعلق موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ مشرق وسطیٰ، مغرب اور مسلمان ملکوں میں تکفیری گروپوں کو”جہادی نسل” کی تیاری کے لیے وافر مقدار میں اپنی ہم خیال دوشیزائیں مل رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ملکوںسے داعش میں شامل ہونے اور جنگجوں کی جنسی تسکین کے لیے شام وعراق کا سفر کرنے والی بیشتر تو ایسی لڑکیاں ہیں جن کی عمریں 15 سال سے زیادہ نہیں ہیں۔ چونکہ ان کی تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہوتی ہے جس کے تحت وہ خود کو رضاکارانہ طور پر داعشی جنگجوں کی ‘خدمت’ کے لیے وقف کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق داعش میں شامل ہونے والی ہرلڑکی بندوق چلانے اور میدان جنگ میں براہ راست لڑائی میں مہارت نہیں رکھتیں بلکہ بہت سی نوعمر لڑکیاں تو بڑے ناز ونعم میں پلی بڑھی ہوتی ہیں۔ وہ جہادی گروپوں کے ساتھ اس لیے شامل ہو جاتی ہیں تاکہ ان کے لیے بچے پیدا سکیں جو کل کو ایک نئی جہادی نسل تیار ہو کر دنیا میں داعش کے مشن کو آگے بڑھا سکے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ شام اور عراق میں سرگرم داعش کا سوشل نیٹ ورک نہایت فعال ہے اور زیادہ تر عورتیں اور کم عمر لڑکیاں سماجی رابطے کی ویب سائیٹس ہی کے ذریعے داعش کے چنگل میں پھنستی ہیں۔ اس ضمن میں فرانس کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جہاں سے جہادی خیالات رکھنے والی کل 25 فی صد لڑکیاں نئے جہادی پیدا کرنے کے لیے داعشی جنگجوؤں سے’نکاح جہاد’ کے لیے عرب ملکوں کا رخ کر چکی ہیں۔
فرانس کے سابق صدر لوئس کاریولی کا کہنا ہے کہ پچھلے چند ماہ میں برطانیہ سے 50 دوشیزائیں داعش میں شامل ہوئیں۔ان میں سے 10 شام پہنچ چکی ہیں جو داعشی جنگجوؤں کے ساتھ نکاح کے بعد حاملہ ہیں۔ شام پہنچنے والی برطانوی جہادی لڑکیوں کی الرقہ شہر میں موجودگی کا پتا چلا ہے۔ ان سب کامقصد نئی جہادی نسل تیار کرنا ہے۔ دوران جنگ اگر ان کا شوہر جنگجو مارا جائے تو اس کی بیوہ کو “شہید کی بیوہ” کا درجہ دیا جاتا ہے، تاہم ایسی خواتین تھوڑے عرصے بعد کسی دوسرے جنگجوسے نکاح کر لیتی ہیں۔
کنگ کولڈیڈج یونیورسٹی کے زیرانتظام انتہا پسندانہ رجحانات پر کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ داعش کی صفوں میں ‘جہادی نسل’ کی تیاری کی غرض سے بھرتی ہونے والی لڑکیوں کی عمریں 16 سے 26 سال کے درمیان ہیں۔ ان میں کئی ایسی ہیں جو جدید مغربی طرز کے تعلیمی اداروں کے گریجویٹ ہیں اور اپنے خاندان کو چھوڑ کر داعش میں شامل ہو چکی ہیں۔