مجید نظامی
طبرانی نے بیان کیا ہے کہ یزید اپنی جوانی میں پینے پلانے والا آدمی تھا اور نو عمروں کی راہ پر چلتا تھا(البدایہ و النہایہ)لوگ یزید کی شراب نوشی، غیر اخلاقی رویے ، خلاف شرع حرکات کی وجہ سے اس سے ناراض تھے۔ اسے ناچ گانے، شکار اور کتے پالنے کا شوق تھا۔ یزید نے اپنے محل میں نابالغ لڑکے اور گانے والیاں رکھے ہوئے تھے۔(البدایہ و النہایہ) حضرت حسین نے عیاش اور گمراہ حکمران کی بیعت سے انکار کردیا۔ موجودہ دور یزیدی قوتوں کے نرغے میں ہے۔ اس دور کو آج پھر ایک حسینؓ کی تلاش ہے جو کاروان حق کو لے کر نکلے اور یزیدی قوتوں کو پاش پاش کردے تاکہ خدا کی کائنات میں امن، انصاف اور حکم ربی کا بول بالا ہوسکے۔رسول خدا ؐکے سب سے پیارے نواسے حضرت علی ؓکے فرزند ارجمند، سیدنا فاطمہ ؐکے لخت جگر حضرت حسین ع کی یاد ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی اسی جوش و جذبے اور آہ زاری سے منائی جاتی ہے۔ دنیا کے ہر شہر میں جہاں مسلمان موجود ہیں محرم کے مہینے میں امام حسین ع کی عظمت کا اقرار اوران سے محبت کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے خود حسین ع کے کانوں میں پہلی اذان دی۔ نواسئہ رسول ﷺ نے آخری دم تک اس اذان کا بھرم قائم اور لا الہ الا للہ کا پرچم بلند رکھا۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا” حسین ع مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں”۔ حسینؓ نے اپنے نا نا کے اس فرمان کو سچ ثابت کر دیا۔ جب خدا کے آخری نبی ﷺ کا دین خطرے میں تھا تو حسین ع نے اپنی اور اپنے پیاروں کی جان کی قربانی دے کر اسلام کو زندہ وجاوید کر دیا۔ اور اپنے نا نا کے مقدس نام کا تحفظ کیا،ناموس رسالت پر حرف نہ آنے دیا۔ آج اسلام ایک بار پھر بحرانی دور سے گزر رہا ہے اور امامت کے لیے حضرت حسین ؓ کی تلاش میں ہے۔حضور اکرمﷺ نے فرمایاجس نے ان دونوں(حسن و حسین ع) سے محبت کی اس نے گویا مجھ سے محبت کی اور جس نے ان دونوں سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا۔(ابی دائود)
یزید کے پیروکار اسلام کا روشن چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔” امر با لمعروف نہی عن المنکر” کے سنہری اسلامی اصول پر عمل کرنے والے کم ہیں۔ حسین ع نے جب دیکھا کہ خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو رہی ہے۔قرآنی احکام پر عمل نہیں ہو رہا، ظلم اور نا انصافی روز بروز بڑھ رہی ہے تو انہوں نے حالات سے سمجھوتہ کرنے کی بجائے علم جہاد بلند کیا اور امت کی اصلاح اور رہنمائی کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
حضرت امام حسین ع کے خطبے سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ہدایت کے مطابق جہاد کرنے نکلے تھے۔ ان کے قافلے میں بچے ،جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد سب شامل تھے۔ جو کسی لالچ کے لیے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے یا کوئی علاقہ فتح کرنے کے نکلتا ہے ۔وہ کبھی بچوں اور عورتوں کو ساتھ لے کر نہیں جاتا۔ حضرت امام حسینؓ کا مقصد جہاد بذریعہ تبلیغ تھا مگر جب انہوں نے دیکھا کے یزید کے ہاتھ پر بیعت یا شہادت کے بغیر اور کوئی راستہ نہیں ہے تو انہوں نے اسلام کے لیے شہادت کو قبول کر لیا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اہل سنت کے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے فرمایا۔جس نے بھی حسین ع کو شہید کیا ان کے قتل میں مدد کی یا ان کے قتل سے راضی ہوا اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ۔ اللہ تعالی نہ ان کے عذاب کو دور کرے گا اور نہ اس کا عوض قبول کرے گا۔(فتاوی ابن تیمیہ: جلد 4 صفحہ 487)
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
واپس جانا چاہے اسے اجازت ہے۔ حسین ع احترام آدمیت کے قائل تھے اور کسی کو شرمسار دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔ ہم سینہ کوبی اور زنجیر زنی کر کے تو حسین ؓسے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں مگر حسین ع کی سیرت اور کردار پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم حسین ع کی طرح احترام آدمیت کے فلسفے کو ہی دل سے تسلیم کر لیں تو فرقہ واریت اپنی موت آپ مر جائے ۔شہادت حسین ع کا سبق یہ ہے کہ نیکی کی تبلیغ کرنا اور برائی سے روکنا ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے ۔جھوٹ اور سچ کی جنگ میں افراد کی قلت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سچ کے علم بردار اگر تعداد میں کم بھی ہوں تو جھوٹ کا مقابلہ کرنا ان کا فرض ہے۔ جنگ بدر اور جنگ کربلا میں یہ بھی ایک قدر مشترک ہے کہ تعداد کی کمی حق کے راستے میں حائل نہ ہوئی۔ حضرت امام حسین ع کا یزید کے خلاف جہاد مذہبی تعصب یا فرقہ واریت کی بنا پر نہ تھا بلکہ اسلام کے تحفظ کیلئے تھا۔ مسلمان کردار کے بحران سے گزر رہے ہیں۔ اللہ کے پیارے نبی ﷺ خلفائے راشدین ع اور امام حسین ع نے عملی کردار کے جو روشن نمونے پیش کیے ہم ان پر عمل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مگر اپنے پسندیدہ خلفا صحابہ اور اماموں کے نام پر ایک دوسرے کو قتل کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت فرمائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ہمیں حضرت امام حسین ع کی شہادت پر رونے اور آہ وزاری کرنے سے زیادہ امام حسین ع کے فلسفہ شہادت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔سلطان باہو نے حضرت امام حسین ع کی عظیم شہادت کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا۔
جے کر دین علم وچ ہوندا تے سر نیزے کیوں چڑھدے ہو
اٹھارہ ہزار جو عالم آہا اوہ اگے حسین دے مردے ہو
جے کجھ ملا حظہ سرور دا کردے تے خیمے تنبو کیوں سڑدے ہو
پر صادق دین اونہاں دے باہو جو سر قربانی کر دے ہو
کر بلا کے میدان میں جب یزید کی فوجوں نے امام حسین ع کے قافلے کا محاصرہ کر لیا تو عاشورہ سے پہلے رات کو حسین ؓنے چراغ بجھا دیئے اور کہا کہ جو شخص