مظاہرین کوبانی میں داعشی محاصرے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے
تُرکی میں شام کے جنگ زدہ کرد علاقے کوبانی اور عین العرب کے کرد باشندوں کی حمایت اور دولت اسلامی “داعش” کی مخالفت میں نکالے گئے ایک احتجاجی جلوس پر ترک پولیس کی فائرنگ سے کم سے کم 12 فراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ یہ واقعہ جنوب مشرقی ترکی میں اس وقت پیش آیا جب شام کے سرحدی کرد قصبے کوبانی میں دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کے خلاف کرد شہریوں نے ایک جلوس نکالا۔ اس دوران مظاہرین نے ترک حکومت کے خلاف بھی شدید نعرے بازی کی اور پولیس پرسنگ باری کی گئی جس کے جواب میں پولیس نے فائرنگ کی اور ایک درجن افراد مارے گئے۔
دو افراد جنوب مشرقی ترکی کے صوبہ سرت میں مارے گئے جبکہ ایک شخص کی باتمان صوبے میں بھی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ قبل ازیں بھی اسی صوبے میں ایک پچیس سالہ نوجوان قتل کر دیا گیا ہے جس کے بعد مقامی
آبادی نے شام کے کرد اکثریتی علاقے کوبانی کو بچانے کے لیے انقرہ حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادھر کل منگل کو ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے خبردار کیا ہے کہ ترکی کی سرحد سے متصل علاقے کوبانی پر داعش قبضہ کرنے والی ہے۔ داعش کا قبضہ روکنے کے لیے زمینی کارروائی ناگزیر ہو چکی ہے۔ جنوبی ترکی میں شامی پناہ گزینوں کے “غازی عنتاب” کیمپ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طیب ایردوآن کا کہنا تھا کہ داعش کا خوف ہمیں زمینی کارروائی سے نہیں روک سکتا۔ انہوں نے کہا کہ فضائی حملے داعش کو کچلنے کے لیے ناکافی ہیں۔ فضائی کارروائی کے ساتھ ساتھ زمینی آپریشن بھی بہت ضروری ہے۔ اگر آج ہی سے زمینی آپریشن شروع نہ کیا گیا تو کوبانی داعش کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔
کوبانی پرداعشی جنگجوؤں کی پیش قدمی ایک ایسے وقت میں جاری ہے جب گذشتہ روز اتحادی ممالک کے جنگی جہازوں نے کوبانی میں شدت پسند تنظیم کے ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے، تاہم اس کے باوجود داعش اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اسی اثناء میں ترک وزیراعظم احمد داؤد اوگلو کا ایک بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے داعش کے خلاف پوری طاقت کے جنگ لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک”سی این این” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں مسٹر اوگلو کا کہنا تھا کہ داعش کے خلاف جنگ میں ان کا ملک ہرممکن تعاون اور کارروائی کے لیے تیار ہے۔