سچن تندولکت نے سولہ سال کی عمر میں کرکٹ کھیلنا شروع کیا او ۲۴؍سال تک کرکٹ کھیلا، یہ ۲۴سالہ کرکٹ کا دور سنہری دور کہلائے گا۔ سچن نے کرکٹ کی دنیا میں اپنے وجود کو منوا لیا اور ثابت کر دیا کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے کس مقام پر پہنچ سکتے ہیں۔اب تک کرکٹ کے بے شمار کھلاڑی کرکٹ سے اپنے وقت کے مطابق سبکدوش ہوچکے ہیں لیکن ان کو اس طرح الوداع عظیم جشن کے ساتھ الوداع نہیں کیا گیا۔ یہ سچن کے لیے اپنی زندگی کا سب سے بڑا اعزاز رہا ہے۔ ملک کے کرکٹ کھلاڑیوں اور دیگر عوام نے جہاں سچن کو الوداعی جشن سے سرشار کیا وہاں خود بھی سرشار ہوئے اور اس جذباتی موقعہ پر حکومت ہند نے سچ کو بھارت رتن ایوارڈ سے سرفراز کرکے اپنے دلی جذبات کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہاں بھی سچن نے اپنا انفرادی مقام بر قرار رکھا یعنی وہ ہندوستان کے پہلے کھلاڑی ہین جن کو بھارت رتن سے سرفراز کیا گیا ہے لیکن جہاںسچن کو بھارت رتن دئیے جانے کا مل کی کثیر آبادی نے استقبال کیا ہے وہاں کچھ لوگوں نے ان کو بھارت رتن دئیے جانے پر احتجاج کیا ہے۔ لیکن یہ احتجاج اس لیے نہیں کہ سچن بھارت رتن ایوارڈ کے اہل نہیں ہیں بلکہ یہ احتجاج اس لیے کیا جارہا ہے کہ سچن سے پہلے ہاکی کے بہترین کھلاڑی میجر دھیان چند کو بھارت رتن دیا جانا چاہئے تھا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ میجر دھیان چند ہاکی کے بہترین کھلاڑی تھے اور انھوںنے ملک کا نام روشن کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہے کہ ماضی کا ہر کرکٹ کھلاڑی بھی ایک سے بڑھ کر ایک خود اپنے آپ میں بھارت رتن تھا لیکن آج ان کو یاد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کی یاد میںکوئیا ٓہ یا واہ کرنے والا کوئی نہیں۔ اگر ہاکی کے کھلاڑی میجر دھیان چند کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر اڈولف ٹیلر نے جرمنی کی فوج میں شامل ہونے کے لیے کہا تھا تو ماضی کے کرکٹ کے کھلاڑی منصور علی خاں پٹوتی کو میدان میں چیتے کی طرح دوڑتے ہوئے دیکھ کر ٹائیگر کا خطاب دیا تھا۔لیکن ان سب کو ماضی کی گرد نے بھلا دیا۔ آج کے مادہ پرست دور مین کرکٹ کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو پرکھنے کے معیار اور ہیں جس کی چکاچوند میں ماضی کے کرکٹ کھلاڑی بھلا دئیے گئے۔ میرے ان جملوں میں کوئی احتجاج نہین ہے۔ میں خود سچن کے کھیل اور صلاحیتوں سے انتہائی متاثر ہوں اور سچن کو ایوارڈ کا مستحق سمجھتا ہوں۔ لیکن اس سب سے باوجود ماضی کے کھلاڑیوں کا خیال آتے ہی میں اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکا، میری آنکھیں نم ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں۔
حکیم سراج الدین ہاشمی