نئی دہلی(وارتا) گھریلو بازار میں آلو کی آسمان چھو رہی قیمتوں کوقابومیں کرنے کیلئے حکومت کے ذریعہ آلو کی درآمد کے منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے اس کاروبار سے وابستہ تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ کاروباریوں کا کہنا ہے کہ آلو کی در آمد کا فیصلہ حکومت نے ایسے وقت میں کیا ہے کہ جب گھریلو سطح پر نئی فصل آنے والی ہے اور اگر ابھی آلو کی درآمد کے لئے ٹنڈر جاری بھی کردیا جائے گا تو بازار میں پہنچتے پہنچتے ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگے گا۔ آزاد پور واقع ایشیا کی سب سے بڑی پھل اور سبزی منڈی کے صدر راجندر شرما نے ایک گفتگو میں بتایا کہ آلو پانچ ماہ سے مہنگا فروخت ہورہا ہے۔حکومت کودرآمد کرنا تھا تو اس کا فیصلہ پہلے ہونا چاہیے تھا۔آئندہ آٹھ دس روز میں پنجاب کی جانب سے نئے کی آلو کی آمد شروع ہوجائے گی اور فراہمی میں اضافے کے بعد نرخ خود بخودکم ہونے لگے گیں۔ انھوںنے کہا کہ آلو کی درآمد کا فیصلہ ملک
اور کاشتکاروں کے مفاد میں نہیں ہے۔ آلو کے بہتر نرخ کے پیش نظر کاشتکاروں نے اس کی پیداوار کی زبردست تیاری کی ہے۔پنجاب کے بعد ہریانہ اور اترپردیش سے بھی نیا آلو آجائے گا۔ایسے میں اگر درآمد شدہ آلو بازارمیں آیا تو کاشتکاروں کے سامنے اپنی پیداوار کو فروخت کرنے میں دشواری ہوگی۔
مسٹر شرمانے بتایا کہ آلو کے نرخ میں دھیرے دھیرے کمی آرہی ہے۔ آلو کی آمد کے مقابلے اس کی طلب بھی کم ہے دہلی میں آلو کا تھوک نرخ ۱۸ روپئے سے لیکر ۵۰ء۲۲ روپئے فی کلو کے درمیان ہے۔ خوردہ بازار میں آلو تیس سے چالس روپئے فی کلو فروخت ہورہا ہے۔ آلو کی آمد تقریباً ۱۵۰۰ ٹن ہے۔ جب کہ فروخت ۱۲۰۰ ٹن کے قریب بتائی جارہی ہے۔ واضح ہو کہ آلو کی بلند قیمتوں کے سلسلے میں حذب اختلاف کی ضد پر آرہی حکومت نے گذشتہ روز اس کی درآمد کا فیصلہ کیا تھا۔ مرکزی وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ نے کہا تھا کہ آلو کی قیمتوں کو قابو کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام کئے جارہے ہیں۔ حکومت اس ماہ آلو کی درآمد کے لئے ٹنڈر جاری کردے گی۔ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ یورپ اور پڑوسی ملک پاکستان سے آلو کی درآمد کی جاسکتی ہے۔ اور درآمد شدہ آلو آئندہ ماہ بازار میں پہنچنے کی امید ہے۔ ملک میں فی الحال کی آلو کی درآمد پر تیس فیصد ڈیوٹی لگتی ہے۔حکومت نے آلو کی برآمدات روکنے کے لئے اس برس جون میں ہی اس کی کم از کم برآمداتی قیمت ۴۵۰ ڈالر فی ٹن طے کی تھی۔