معصوم مرادآبادی
بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تازہ کوششوں نے ایک بار پھر
مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے ۔ گزشتہ ہفتہ کانچی پیٹھ کے شنکراچاریہ کی لکھنؤ کے ایک مولانا سے ملاقات کو
میڈیا نے جس انداز میں اجاگر کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے
کہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں سے منہ کی کھا کر اب وشوہندو پریشد نے بعض ایسے علماء سے سازباز شروع کردی ہے جو سستی شہرت اور جاہ پرستی پر یقین رکھتے ہیں۔ وشو ہندو پریشد نے ماضی میں بھی چور راستے سے رام مندر بنانے کی راہ ہموار کرنے کیلئے مسلمانوں کی ’رضامندی ‘حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔ لیکن اس مرتبہ خاص بات یہ ہے کہ اس کوشش میں’’ ۱۲۵کروڑ ہندوستانیوں کے وزیر اعظم‘‘ نریندر مودی کا ایک ایسا فارمولہ شامل ہے جو کسی بھی طرح ایک سیکولر جمہوری ملک کے سربراہ کو زیب نہیں دیتا۔وزیر اعظم نریندر مودی سب کا ساتھ اور سب کی ترقی کا نعرۂ مستانہ ضرور لگاتے ہیں لیکن وہ عملی طور پر صرف اکثریتی فرقہ کے مفادات پورے کرنے کی راہ میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ابھی تک اس ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں اعتماد اور بھروسہ پیدا کرنے کیلئے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں کیاہے۔ وہ مسلمانوں کو طفل تسلیوں پر زندہ رکھ کر اکثریتی فرقہ کے مذہب اور کلچر کی بالا دستی کیلئے ملک و بیرون ملک میں سرگرم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گزشتہ ہفتہ کانچی پیٹھ کے جگت گروشنکراچاریہ جنندر سرسوتی کو ایک فارمولہ لے کر لکھنؤ بھیجا تاکہ وہاں سربرآوردہ مسلمانوں سے اس پر تبادلۂ خیال کریں لیکن کسی بھی قابل ذکر مسلم رہنما یا تنظیم نے ان سے ملاقات نہیں کی، البتہ لکھنؤ کی عیدگاہ کے نوجوان امام مولانا خالد رشید فرنگی محلی ضرور ان کے ہاتھ چڑھ جنہوں نے شنکراچاریہ کو خوش آمدید کہا ۔ واضح رہے کہ اس ملاقات کا اہتمام ایک ایسے بچولیے نے کیا تھا جو مسلمانوں جیسا نام رکھنے کے باوجود وشو ہندو پریشد کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے اور وہ اس معاملے میں پہلے بھی کئی بار منہ کی کھا چکا ہے۔ شنکراچاریہ نے مولانا فرنگی محلی کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرانے کی پیشکش کی ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ملاقات سے قبل مذکورہ بچولیے نے مولانا خالد رشید فرنگی محلی کو شنکراچاریہ کی آمد کے مقصد سے پہلے ہی واقف کرادیا تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے شنکراچاریہ کی خدمت میں پھول نچھاور کئے اور ان کی تواضع کی ۔اب آئیے اس مقصد کی طرف جو اس ملاقات کے پیچھے کارفرما تھا ۔
شنکراچاریہ نے مولانا فرنگی کو بتایا کہ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے اجودھیا میں رام مندر تعمیر کرنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ سنی سنٹرل وقف بورڈ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر مقدمہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ واپس لے لے اور ہمیں اسی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے جہاں پہلے بابری مسجد واقع تھی۔ اس کے بدلے ہم مسجد کی تعمیر کیلئے مندر کی جگہ سے دور اجودھیا میں ہی نہ صرف زمین دیںگے بلکہ سر پر اینٹ ڈھونے کو بھی تیار ہیں۔ شنکراچاریہ کے اس فارمولے پر مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے، اسلئے وہ اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتے ۔ اس پر شنکراچاریہ نے مولانا سے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو دو تین دن میں ان کی ملاقات وزیر اعظم نریندر مودی سے کرادیںگے ۔ شنکراچاریہ کی اس پیشکش پر ان کے نائب نے مزید کہا کہ نریندر مودی شنکراچاریہ جی کو اپنا گرو تسلیم کرتے ہیں اور وہ ان کی کسی بات کو ٹال نہیں سکتے۔
اب یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ جب مولانا فرنگی کو اس بات کا علم تھا کہ یہ معاملہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور وہ اس معاملے میں مذاکرات کرنے کا حق نہیں رکھتے تو پھر انہوں نے بابری مسجد کے تمام حقوق غصب کرنے کے ارادہ رکھنے والے شنکراچاریہ سے کس بنیاد پر گفتگو کی۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد مولانا فرنگی پر ملی حلقوں میں زبردست تنقید ہوئی اور انہیں اگلے روز ایک وضاحتی بیان جاری کرنا پڑاجس میں انہوں نے خود اس بات کو تسلیم کیا کہ شنکراچاریہ سے ان کی ملاقات کے سلسلے میں عوام میں بڑی بے چینی اور غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں۔انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ شنکراچاریہ سے ان کی ملاقات ذاتی حیثیت میں ہوئی اور اس ملاقات کا مسلم پرسنل لاء بورڈ سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ مولانا فرنگی کی اس وضاحت کے باوجود ان کی ’ذاتی حیثیت ‘پر چھائے شکوک وشبہات کے بادل چھٹتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ مولانا فرنگی محلی نے بابری مسجد کے سلسلے میں شنکراچاریہ کو ملاقات کی دعوت دے کر ایک ناعاقبت اندیشانہ کام کیا ہے اور خواہ مخواہ اپنی شخصیت کو متنازع بنالیا ہے ۔
اب آئیے ایک نظر شنکراچاریہ جگت گرو جنندر سرسوتی کے کردار پر بھی ڈال لیں۔ یہ شنکراچاریہ پہلے ہی دن سے آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد کے اشاروں پر کام کرتے رہے ہیں۔ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار انہوں نے اپنی مذہبی حیثیت کا ناجائز استعمال کرکے مسلمانوں پر بابری مسجد کے حق ملکیت سے دستبردار ہونے کا دباؤ ڈالا ہے تاکہ وہاں وشو ہندوپریشد کے منصوبہ کے مطابق عالیشان رام مندر تعمیر ہونے کی راہ ہموار ہوسکے۔ لیکن مسلمانوں کی نمائندہ تنظیموں نے ہر بار ان کے اس مطالبہ کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے لیکن یہ اتنے بے غیرت ہیں کہ اپنی کوششوں سے باز نہیں آتے اور دائیں بائیں ہاتھ پاؤں مارتے رہتے ہیں۔اس بار انہوں نے یہ سوچا کہ ان کی پشت پر وزیر اعظم نریندر مودی کا ہاتھ ہے تو شاید مسلمان اقتدار سے مرعوب ہوکر خود سپردگی کردیں اور بابری مسجد کی آراضی رام مندر کے لئے پیش کردیں۔لیکن وہ اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ بابری مسجد کا تنازع محض ایک قطعہ اراضی کا تنازع نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور آئینی حقوق کا سوال بھی وابستہ ہے ۔اس تنازع کے تصفیہ کے ساتھ یہ بھی طے ہونا ہے کہ یہ ملک قانون اور دستور کے مطابق چلے گا یا یہاں کے فیصلے عددی برتری کی بنیاد پر زور زبردستی کئے جائیںگے۔ مسلمانوں نے بابری مسجد کے معاملے میں اب تک جو کچھ بھی نقصان اٹھایا ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ وہ فسطائی طاقتوںکے آگے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہیں ۔مسلمان آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ بابری مسجد تنازع کا حل انصاف اور قانون کی روشنی میں ان ہی کے حق میں ہوگا۔ شنکراچاریہ موصوف نہ صرف بابری مسجد کی آراضی کو غصب کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ دیگر مساجد سے بھی مسلمانوں کو دستبردار ہونے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ بابری مسجد کے علاوہ متھرا کی عید گاہ اور بنارس کی گیان واپی مسجد سمیت وشوہندو پریشد کے پاس ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست ہے، جو ان کی نگاہ میں مندروں کے ملبے پر تعمیر کی گئی ہیں۔شنکراچاریہ موصوف نے ۲۰۰۲میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو جو خط لکھا تھا اس میں بابری مسجد کے ساتھ دیگر مساجد سے بھی مسلمانوں کو دستبردار ہونے کی بات کہی تھی لیکن بورڈ کی مجلس عاملہ نے شنکراچاریہ کے اس خط کو پوری طرح مسترد کردیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایسی ہی کوشش ۲۰۰۵میں بھی کی تھی لیکن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے دوبارہ ان کی تجاویزکو نامنظور کردیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان تمام حقائق کو جاننے کے باوجود مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے شنکراچاریہ کو ملاقات کا شرف عطا کیا۔ شنکراچاریہ موصوف ہمیشہ مسلمانوں کو اپنے دعوے سے دستبردار ہونے کیلئے ہی بات کرتے ہیں لہٰذا کسی ایسے شخص سے خواہ وہ کتنی ہی بڑی مذہبی حیثیت رکھتا ہو کسی مسلمان کا بات کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ایک ایسے مرحلے میں جب بابری مسجد کا مقدمہ آخری فیصلے کا منتظر ہے، وہاں بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کی بات کرنا بد نیتی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس معاملے میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قانونی کمیٹی پوری تیاری کے ساتھ سپریم کورٹ میں پیروی کررہی ہے اور اسے عدالت سے انصاف کی پوری امید ہے ۔ایسے میں شنکراچاریہ اور مولانا فرنگی کی ملاقات محض سستی شہرت بٹورنے اور مسلمانوں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ایک طرف تو سب کے ساتھ انصاف کرنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ اجودھیا تنازع کو ایک فریق کے حق میں حل کرنے کیلئے ایک متنازع شنکراچاریہ کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔بابری مسجد کا معاملہ اس ملک میں انصاف اور قانون کی بالا دستی قائم کرنے کی کسوٹی بن چکا ہے ۔ ایک ایسے معاملے میں وزیر اعظم کا ایک فریق کے طور پر شامل ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔ آخر یہ انصاف اور عدل قائم کرنے کا کون سا طریقہ ہے اور کیا یہ وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے۔
masoom.moradabadi@gmail.com