سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پرکے نتیجے میں دل کے زبردست دورے کی وجہ سے انسان ہوش کھو سکتا ہے یا طویل بے ہوشی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
انسانی جسم پر حکمرانی کرنے والا انتہائی پیچیدہ اور نازک عضو دماغ کھوپڑی کی حفاظت میں ہوتا ہے لیکن کسی حادثے کے نتیجے میں اگر دماغ شدید چوٹوں سے گھائل ہو جائے توانسان ہوش وحواس سے بیگانہ ہو سکتا ہے۔ یہ کیفیت اگر کافی عرصے تک قائم رہے توایسی حالت میں مریض زندہ تو ہوتا ہے لیکن اس کا دماغ ایک طرح سے مردہ ہو جاتا ہے اور مریض کسی بھی قسم کاردعمل ظاہر کرنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے شدید دماغی چوٹ کے نتیجے میں ہوش گنوا دینے والے مریضوں کے دماغ میں پوشیدہ بیدا ری کی روشنی کا پتا لگایا ہے اور تجویز کیا ہے کہ یہ پوشیدہ علامت متاثرہ مریض کے دماغ میں شعور کی ایک کرن ہو سکتی ہے۔سائنسی جریدے ‘پلوس کمپی ٹیشنل بائیولوجی ‘میں شائع ہونے والی نئی تحقیق سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ ایسے مریضوں کے دماغ میں نیورانز (عصبی خلیات ) پر مشتمل شعور سے متعلق سرگرمیاں انجام دینے والا نیٹ ورک اچھی طرح سے موجود تھا۔
علاوہ ازیں انہی ہوش وحواس کھو دینے والے بعض مریضوں کے دماغ کے کچھ حصوں میں سرگرمیاں دکھائی دیں جو کہ ایک صحت مند شخص کے دماغ کی بیدا ری کی سرگرمیوں سے ملتی جلتی تھیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عام طور پر شدید دماغی چوٹ کے نتیجے میں دل کے زبردست دورے کی وجہ سے انسان ہوش کھو سکتا ہے یا طویل بے ہوشی میں مبتلا ہوسکتا ہے جس کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ایسے مریض اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔لیکن میڈیکل سائنس میں ’’ویجی ٹیٹیو پیشنٹس‘‘ کی اصطلاح ایسے مریضوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جس میں مریض کو بیدار خیال کیا جاتا ہیاور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی آنکھیں کھول سکتا ہے اور دیکھ سکتا ہے اور بے ہوشی کی حالت میں نیند کے سائیکل کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن کوئی بھی ردعمل ظاہر نہیں کر سکتا ہے۔میڈیکل سائنس کے مطابق دماغی چوٹ کی وجہ سے کسی انسان میں ‘ڈس آرڈر آف کونشسنیس ‘ (شعور کے عوارض ) پیدا ہوتا ہے جس کی تین قسمیں ہیں پہلی قسم میں مریض تھوڑا بہت بیدار ہوتا ہیاور اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی کچھ کچھ باخبر ہوتا ہے۔
دوسری قسم ویجی ٹیٹیومریضوں کی ہے جنھیں بیدار لیکن ارد گرد کے ماحول سے لا تعلق خیال کیا جاتا ہے جبکہ تیسری قسم کومے کے مریضوں کی ہے جو بے ہوش ہوتے ہیں اپنے ارد گرد سے بے خبر ہوتے ہیں اور ان میں نیند کا سلسلہ بھی ظاہر نہیں ہوتا ہے اور نا ہی وہ اضطراری ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔کیمبرج یونیورسٹی ،یونیورسٹی آف کیلی فورنیا ، یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو اور یونیورسٹی آف ڈیاگو پورٹ الیس چلی کے محققین کی قیادت میں کی جانے والی کنٹرولڈ تحقیق کے لیے ۳۲ ویجی ٹیٹیو پیشنٹس اور ۲۶ صحت مند افراد کے دماغ کی برقی سرگرمیوں کا معائنہ کرنے کیلئے الیکٹرو سیفلو گرام ( EEG) کا عمل انجام دیا گیا اور ویجی ٹیٹیو مریضوں کے دماغ کے برقی سگنلز اور نیورانز کے عصبی رابطوں کا موازنہ صحت مند رضا کاروں کے دماغ کے ساتھ کیا گیا۔نتیجے سے معلوم ہوا کہ صحت مند دماغ اور ویجی ٹیٹیو حالت کے مریض کے دماغ کے درمیان واضح فرق تھا ویجی ٹیٹیو مریضوں کے دماغ میں بیداری اور شعور کو سپورٹ کرنے والے عصبی رابطے خراب ہو چکے تھے۔ اسی طرح تحقیق سے یہ بھی پتا چلا کہ دماغ کے برقی کنکشنز کا معیار مریضوں کے اس اضطراری ردعمل کی سطح کے ساتھ منسلک تھا جس کا انھوں نے مظاہرہ کیا تھا۔جبکہ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ان میں سے تھوڑی سی تعداد میں وہ مریض بھی تھے جو ارد گرد سے زیادہ باخبر تھے اور ان کا دماغ اس سے زیادہ بیدار تھا جتنا کہ ان کے بارے میں سوچا گیا تھا۔تحقیق کے دوسرے مرحلے میں 13 ویجی ٹیٹیو مریضوں کے دماغ کا اسکین حاصل کرنے کے لیے ایم آر آئی مشین کا استعمال کیا گیا اس دوران مریضوں سے کہا گیا کہ وہ تصوراتی طور پر ٹینس کھیلنے کی کوشش کریں۔کیمبرج یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ، اسکین سے پتا چلا کہ۱۳ میں سے ۴ مریض ایسے تھے جن کے منصوبہ بندی اور تحریک سے منسلک دماغ کے حصے میں روشنی ہوئی جب انھوں نے ٹاسک انجام دیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کافی حد تک بیدار تھے کہ اس حکم کو سمجھ سکیں اور اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر سکیں اور پھر اسے انجام دے سکیں۔
تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سری واس چنوں نے کہا کہ اس قسم کی معلومات مریض کی دیکھ بھال کرنے کے حوالے سے مریض کے اہل خانہ اورشعبہ صحت کی ٹیم کے لیے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔تحقیق سے منسلک ڈاکٹر ٹرسٹن بیکشٹائن نے کہا کہ اگر مریض کے دماغ میں بیداری کے سگنلز اور برقی رابطے برقرار ہیں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے آس پاس میں جو ہو رہا ہوتا ہے اس کے بارے میں باخبر ہے۔