منظر پس منظر…………………………………عبیداللہ ناصر
ہندوستان میں 90کی دہائی میں معاشی اصلاحات کے آغاز کے ساتھ ہی لیبر قوانین میں اصلاحات کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں ۔ معاشی امور کے ماہرین صنعت کاروں اور سر مایہ کاروں کا کہنا تھا کہ کھلی معیشت کے دور میں سوشلزم کے زمانہ کے لیبر قوانین لاگو نہیں رکھے جاسکتے کیونکہ کوئی بھی آجر پیدا واریت سے کسی بھی طرح کا کھلواڑ بر داشت نہیں کر سکتا۔ بغیر منافع کے کسی بھی کارخانہ یا ادارہ کو نہیں چلا یا جاسکتا اور منافع کے لئے دیگر فیکٹرس کے علاوہ مزدوروں اور عملہ کی پیدا وار یت میں اضافہ ضروری ہے ۔ سوشلزم کے زمانہ کے لیبر قوانین اس تھیوری کو مد نظر رکھ کر بنائے گئے تھے کہ مالکان اپنا منافع بڑھانے کے لئے مزدروں کو نہ صرف کم اجرت دیتے ہیں بلکہ دیگر طریقوں سے بھی ان کا استحصال کرتے ہیں مثلاً وقت معین سے زیادہ کام لینا تحفظ حفظان صحت سمیت مزدوروں کو ملنے والی قانونی سہولیات مثلاً پی ایف بونس وغیرہ نہ دینا حتی یہ کہ ان کی محنت کے مطابق انہیں اجرت بھی نہ دینا وغیرہ شامل ہے ۔ لیکن آزاد معیشت کی ایک اچھی بات یہ بھی سامنے آئی کہ اجران نے اپنے عملہ کو اپنے منافع میں ہے مناسب حصہ دینے کا بھی سلسلہ شروع کردیا حتی یہ کہ کئی معاملات میں پرائیویٹ زمرہ کی تنخواہیں سرکاری زمرہ سے زیادہ ہونے لگیں اور زیادہ با صلاحیت نو جوان سر کاری نوکریوںپر پرائیویٹ نوکریوں کو ترجیح دینے لگے جس سے سرکاری عملہ میں با صلاحیت نوجوانوں کی آمد کا سلسلہ متاثر ہوا ۔ منموہن سنگھ کے پہلے دور حکومت میں جب چھٹا پے کمیشن تشکیل ہواتو اس کی سفارشات میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا کہ سر کاری عملہ کو پرائیویٹ زمرہ سے اچھی تنخواہ دی جائے تاکہ سر کاروں کو با صلاحیت عملہ مل سکے ۔ سر مایہ کاروں اور صنعت کاروں کی ذہنیت میں اس تبدیلی کو روشن خیال سرمایہ داری
Enlightened Capitalis کانام دیا گیا۔لیکن اس روشن خیال سرمایہ داری نے اپنے ملازمین کو اچھی اجرت دینے میں تو کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن انہیں کوئی حق اور اختیار دینا مناسب نہیں سمجھا۔ انہوں نے Hire & Fire کی پالیسی اختیار کی یعنی جب احساس ہوا کہ کوئی کارکن ان کے دئے ہوئے ہدف کو پورا نہیں کر دیا ہے تو بڑی بیدردی سے اسے سڑک پر کھڑا کردینے میں کوئی قباحت نہیں دکھائی ۔ ملازم نے ہدف کیوں نہیں پورا کیا اس کی اس کمزوری میں خود کمپنی کے پرو ڈکٹ اس کی قیمت اور کوالٹی کا کیادخل ہے یا مذکورہ عملہ کی اپنی کوئی ذاتی پریشانی یا مشکل بھی ہے ان سب کا احساس کئے بغیر ملازم کو نکال باہر کرنا ان کے مستقبل کی طرف کوئی دھیان نہ دینا یعنی فنڈ وغیرہ کی سہولت نہ دینا یہ سب سلسلہ بھی جاری رہا۔
سر مایہ دار زیادہ اجرت دینے کو تو تیار ہیں لیکن ملازم کے سلسلہ میں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لیبر قوانین میں مسلسل اصلاحات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اصلاحات نہ ہونے کی شکل میں نئی نئی ٹکنالوجی کے ذریعہ کم سے کم عملہ سے کام چلانے کو ترجیح دی سرمایہ داروں اور مالکوں کا رویہ رہا کہ ٹکنالوجی اور مشینری پر تو چاہے کروڑوں خرچ کردو لیکن انسانی وسائل یعنی عملہ اور مزدوروں پر کم سے کم خرچ کرو ۔ حالات کو خراب کرنے میں غیر ذمہ دار ٹریڈ یو نینوں نے بھی کوئی کور کثر نہیں چھوڑی بات بات پر ہڑتال نا مناسب مطالبات پر زور پیدا واریت اور فیکٹری کے مفاد کی طرف سے لا پروائی وغیرہ کی بناپر اجران نے ٹریڈی یو نین لیڈروں کو اپنے ہتھ کنڈوں سے کنارے کرکے پہلے مزدروں کا جذباتی
استحصال کیا اور پھر مالکان سے سمجھوتہ کرکے مزوروںکے مفاد کا سودا کرلیا ۔ آجر اور اجیر کے مفاد میں توازن کی طرف توجہ نہ دینا لیبر تحریک کے لئے زہر ہلا ہل ثابت ہوا۔
ہندوستان میں ویسے ہی قانون سے کھلواڑ شان کی بات سمجھی جاتی ہے لیبر قوانین کے سلسلہ میں تو حکومت کا رویہ بھی مضحکہ خیز رہاہے جس کا انداہ اسی سے کیا جاسکتاہے کہ ڈپٹی لیبر کمشنر کے عہدہ پر عموماً پی سی ایس افسروں کو تعینات کیا جاتا ہے جن کو صنعت کار اور سرمایہ دار زیادہ اہمیت نہیں دیتے وہاں سے جاری نوٹسوں پر بھی کافی عرصہ تک توجہ نہیں دیتے اس کے بعد ان کے زر خرید و کلا تاریخ پر تاریخ لے کر مزدور کے کس بل نکال دیتے ہیں اور وہ یا تو شکست تسلیم کرکے خودسپردگی کردیتا ہے یا پھر تن بہ تقدیر ہوکر خاموش ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں صنعت کاراور سرمایہ دار لیبر اصلاحات کے نام پر مزدوروں کے کن حقوق کو صلب کرنا چاہتے ہیں یہ ابھی واضح نہیں ہے سوائے اسکے کہ وہ انہیں جب چاہے ملازمت سے بر طرف کردینے اپنی مرضی سے اجرت دینے اورکام کے گھنٹے متعین نہ ہونے کی آزادی چاہتے ہیں ۔ ایک اور مسئلہ کمپنی کے بند ہونے کاہے سابقہ قانون کے مطابق اگر کسی کمپنی میں100ملازم ہیں اور اسے بند کرناہے تو اسکے لئے محکمہ محنت سے اجازت لینا لازمی ہے اب یہ تعداد بڑھاکر400کردی گئی ہے مگر صنعت کار اس کی کوئی حد نہیں چاہتے۔ یہاں ان کی اصل مشکل کو سمجھنا ضروری ہے کمپنی گھاٹے میں تو نہیں یا مالک یہ کمپنی بند کرکے کوئی دوسرا کاروبار تو نہیں شروع کررہا ہے کئی مسائل بھی ہوسکتے ہیں اور مزدوروں سے چھٹکارا پانے کی سازش بھی اس لئے اور پر غرض کیا گیاہے کہ مزدوروں اور صنعت کاروں کے مفاد میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے کسی صنعت کار کو گھاٹا اٹھاکر کمپنی چلانے کے لئے اگر مجبور نہیں کیا جاسکتا تو اسے مزدوروں کا خون چوسنے کی بھی آزادی نہیں دی جاسکتی۔
وزیراعظم نریندرمودی نے گزشتہ دنوں جن لیبر اصلاحات کا اعلان کیاہے ان میں انہوںنے متنازعہ مسائل کو فی الحال چھونے سے گریز کیاہے بلکہ چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں کی ہیں مثلاً اب لیبر انسپکٹر اپنی مرضی سے اپنے حلقوں کی فیکٹریوں کی جانچ پڑتال نہیں کر سکیں گے بلکہ کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعہ انہیں ضرورت کی جگہ بھیجا جائے گا انہیں معین وقت میں اپنی رپورٹ پیش کرنی ہوگی ویسے بھی انسپکٹروں کی جانچ پڑتال کو مالکان زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے کیونکہ ان سب کا ’’ ماہانہ ظیفہ‘‘ متعین تھا اب تو اوربھی آزادی مل گئی ، صنعت کاروں کا کہناہے کہ اگر انہیں سرکاری جکڑ بندیوں سے نجات مل جائے تو وہ پیدا وار میںاضافہ کر سکتے ہیں جس سے روز گار کے مواقع بڑھیں گے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایمانداری سے مزدوروں کو ان کی اجرت دے دی جائے اور انکے قانونی حقوق کا پاس و لحاظ رکھا جائے تو پیداوریت کیوں نہیں بڑھ سکتی ہے ہاں کاہل اور کام چور مزدروں کے ساتھ کوئی مروت نہیںہونی چاہئے اور اس سلسلہ میں ٹریڈیو نینوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے اور ایسے کسی مزدور کی حمایت نہیں کرنی چاہئے جو کمپنی کوکس بھی طرح سے نقصان پہنچا رہا ہو ۔ وزیر اعظم نے پراویڈنٹ کے ڈجیٹل نمبروں کا آغاز کرکے ایک مثبت قدم اٹھایاہے فنڈ کا اربوں رویہ جو مزدوروں کو کسی وجہ سے واپس نہیں کیا جاسکا اگر وہ واپس ہوجائے جیساکہ وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے تو یہ ایک بڑا کارنامہ ہوگا ۔ امید ہے وزیر اعظم کے اعلانات پر محکمہ محنت ایمانداری سے میعاد بند طریقہ سے عمل در آمد یقینی بنائے گا۔ لیبر اصلاحات کے نام پر اگر صنعتکاروں کو مزدوروں کاخون چوسنے کی اجازت دے دی گئی تو پھر ’’فلاحی حکومت‘‘ کا ہمارا تصور ہی مٹی میں مل جائیگا اس لئے مالکوں اور مزدوروں کے مفاد میںتوازن ہر قیمت پر برقرار رکھا جانا ضروری ہے۔
مضمون نگار(روزنامہ قومی خبریں کے ایڈیٹر ہیں)