انٹرنیٹ داعش کے افکار خیالات کی تشہیر کا موثر ذریعہ
شام اور عراق میں اپنی خود ساختہ اسلامی ریاست قائم کرنے والی تنظیم دولت اسلامی’’داعش‘‘ دنیا بھر کے عسکریت پسندوں اور عام نوجوانواں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کے لیے مختلف طریقے اور ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے جنگجو بھرتی کرنا اس تنظیم کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ صرف جنگجو مرد ہی نہیں بلکہ خواتین کو بھی انٹرنیٹ پر مزعومہ اسلامی ریاست کے بارے میں سہانے خواب دکھا کر ورغلانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق داعشی جنگجو انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی خود ساختہ اسلامی ریاست کے بارے میں مبالغہ آمیز پروپیگنڈہ کرتے ہوئے اسے’’ڈیزنی لینڈ‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں جہاں پر خواتین کو پُرسکون اور پرتعیش زندگی گذارنے، مکان، رہائش اور دنیا کی جدید ترین سہولتوں سے آرستہ ماحول فراہم کرنے کے سہانے خواب دکھائے جاتےہیں۔
داعش کا یہ پروپیگنڈہ واقعی نہایت موثر ثابت ہو رہا ہے اور لوگ داعشیوں کی دیو مالائی داستانوں پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے اور نام نہاد اسلامی ریاست یا ’اپنے خوابوں کی جنت‘ میں پہنچنے کے لیے شام اور عراق کا رخ کر رہے ہیں۔
داعش کا یہ پرپیگنڈہ مغربی ممالک کی نوجوان لڑکیوں کے لیے بھی نہایت پرکشش ہے اور وہ سکون کی تلاش میں شام اور عراق جیسے خار زاروں کی طرف دوڑی چلی آتی ہیں۔
ایسے واقعات اب تواتر کے ساتھ پیش آنے لگے ہیں۔ یورپی ممالک اپنے ہاں داعش کی تیزی سے پھیلتے نظریات وافکار سے پریشان ہیں۔ امریکا نے اپنے اتحادیوں کی مدد سے داعش کے خلاف جنگ تو شروع کر رکھی ہے مگر اطلاعات ہیں کہ گذشتہ جمعہ 17 اکتوبر کو ریاست کولوراڈو کے شہر ڈنفر سے تین افریقی نژاد نوجوان لڑکیاں اچانک غائب ہو گئی تھیں جو بعد ازاں جرمنی سے گرفتار ہوئیں۔ وہ داعشی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ممکنہ طور پر ترکی کے راستے شام جا رہی تھیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ لاپتا ہونے والی تینوں اسکول کی کم عمر طالبات ہیں جو مبینیہ طور پر داعش کے ’’ڈیزنی لینڈ‘‘ کے سہانے خوابوں کی تعبیر پانے شام روانہ ہوئی تھیں۔ ان میں سوڈان کی دو سگی بہینیں جن عمریں 15 اور سترہ سال کے درمیان ہیں اور ایک انہی کی ہم عمر صومالی لڑکی شامل ہے۔
اخبار ’’ڈیلی نیوز‘‘ نے اسلامی عسکریت پسندوں کے امور کے ماہرین کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انٹرنیٹ داعش کا عالمی سطح پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور خواتین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ داعشی جنگجو انٹرنیٹ پر اپنی مزعومہ اسلامی ریاست کے بارے میں ایسے ایسے سہانے خواب دکھاتے ہیں کہ ناواقف لوگ فورا ان پر یقین کر لیتے ہیں۔ وہ آنکھیں موندھے یقین کر بیٹھتے ہیں کہ انہیں شام اور عراق جیسے بدترین بدامنی کے شکار ملکوں میں محفوظ مکان، من چاہا ساتھی اور زندگی کا دیگر عیش وآرام میسر آئے گا اور ہو نہ ہو ان کی خوابوں کی جنت تو داعش کی’ اسلامی ریاست‘ ہی ہو سکتی ہے۔
کولوراڈو کے جس اسکول سے تین دوشیزائیں غائب ہوئیں اس کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تینوں کو انٹرنیٹ کے ذریعے داعشیوں نے ورغلایا ہے۔ یہ شبہ اس لیے ہو رہا ہے کہ داعش کے ایک دہشت گرد کا ایک بیان سامنے آیا جس میں اس نے تین افریقی نژاد امریکی طالبات کی داعش میں شمولیت کا دعویٰ کیا ہے۔ امریکا کی میسی چیوسٹس یونیورسٹی سے وابستہ سیکیورٹی اسڈیز کی خاتون استاذ میال بلوم کا کہنا ہے کہ داعش کے حامی کم عمر لڑکیوں اور ناسمجھ افراد کو پھنسانے کے لیے شام اور عراق کے درمیان حقیقت سے خالی اپنی نام نہاد ریاست کے بارے میں ایسے ایسے خیالی تصور پیش کرتے ہیں کہ انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔
انٹرنیٹ پر اس ریاست کے بارے میں جو باتیں مشہورکی جار رہیں وہ کچھ ایسی داستانوں پر مبنی ہیں جن میں اسے’’ڈیزنی لینڈ‘‘ جیسے پرسکون اور پرتعیش جیسے مقامات کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔ داعش کی اسلامی ریاست کے بارے میں انٹرنیٹ پر جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ کم عمر لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے ایک سہانے خواب سے کم نہیں ہے۔ اس میں اسلامی ریاست کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کہیں گئی ہیں جس طرح ڈیزنی لینڈ فلموں میں بیان کی جاتی ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کولوراڈو سے لاپتا ہونے والی تینوں لڑکیاں مقامی نہیں بلکہ وہ صومالیہ اور سوڈان جیسے ملکوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ فرار سے قبل انہوں نے اپنے گھروں سے اچھی خاصی رقم بھی چوری کرلی تھی۔ بعد ازاں انہیں جرمنی میں گرفتار کیا گیا اور واپس امریکا بھیج دیا گیا۔ ان لڑکیوں نے بھی اعتراف کیا کہ وہ انٹرنیٹ پر اسلامی ریاست کے بارے میں خبریں سننے کے بعد شام جانا چاہتی تھیں۔