ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں موٹاپے کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی، تو یہ بچے نوجوانی میں ہی کئی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ دل کے امراض، بلڈ پریشر، کولیسٹرول، ذیابیطس۔تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ نارمل اور فربہ بچوں کے دل کے حجم میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔جرمنی کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ماہر ڈاکٹر نارمن مینگنر کہتے ہیں کہ، ’ہمیں اب تک یہ نہیں معلوم کہ یہ رجحان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمیں اس بات کا علم ایک تحقیق کے دوران ہوا۔ اس بارے میں فی الحال کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے‘۔تحقیق کے مطابق، فربہ بچوں کے دل کے حجم کے معائنے پر معلوم ہوا کہ فربہ بچوں کے دل کا حجم ان بچوں سے بہت ملتا جلتا تھا جو لْوکیمیا (خون کا کینسر) کے مرض میں مبتلا تھے اور کیمو تھراپی کے عمل سے گزر رہے تھے۔تحقیق دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں میں مٹاپے کے باعث ان کے دل کی ساخت بدل جاتی ہے۔تحقیق کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ بچوں میں یہ رجحان بہت چھوٹی عمر سے پایا جاتا ہو۔اس تحقیقی جائزے کے لیے ڈاکٹر مینگنر اور ان کے ساتھیوں نے ۹ سے۱۶ برس کی عمر کے ۱۰۱ بچوں کے خون کے نمونے حاصل کیے اور ان کا تجزیہ کیا۔ ان میں سے۶۱ بچے فربہ تھے۔ ان تمام بچوں کے سونوگرام بھی لیے گئے اور ان بچوں کے دل کی دھڑکنوں کا بھی جائزہ لیا گیا۔موٹے بچوں کے دل اپنے ہم عصر ساتھیوں کی نسبت حجم میں بڑے تھے جس کے باعث دل کی طرف سے جسم کو خون کی ترسیل میں مشکلات درپیش تھیں۔ یوں ان بچوں کے جسموں کو آکسیجن درست طریقے سے نہیں مل پا رہی تھی۔ موٹے بچوں کے دل کو ایک عام نارمل وزن کے حامل بچے کی نسبت خون کی گردش یقینی بنانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑ رہا تھا۔دوسری طرف، جب ان بچوں کا بلڈ پریشر نوٹ کیا گیا تو موٹاپے کی طرف مائل بچوں کا بلڈ پریشر دوسرے بچوں کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔ ماہرین کے نزدیک یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ موٹے بچوں کے جسم میں کولیسٹرول کی شرح بھی دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں موٹاپے کے مسئلے پر قابو پانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ بچے نوجوانی میں ہی کئی سنگین بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں، جیسا کہ دل کے امراض، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور ذیابیطس۔ماہرین کہتے ہیں کہ والدین کو چاہیئے کہ نہ صرف چھوٹی عمر سے ہی بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، بلکہ انہیں ورزش کا عادی بھی بنائیں، تاکہ بچے اوائل عمر سے ہی صحتمندانہ طرز ِزندگی اپنا کر بیماریوں سے دور رہ سکیں۔