تحقیق میں ماہرین نے اخذ کیا ہے کہ دن بھر دو سے تین کپ چائے کے استعمال سے اوسٹیوپروسس (ہڈیوں کے کھوکھلا ہونے کے مرض ) سے تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔چائے دنیا بھر کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب ہے۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہی جہاں لمحہ بھر میں آپ تروتازہ ہو جاتے ہیں ،وہیں چائے اپنے پینے والے کو اپنا عادی بھی بنا لیتی ہے تاہم چائے کے شوقین افراد کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ چائے کی یہ عادت ان کی ہڈیوں کی مضبوطی کا ایک آسان نسخہ ثابت ہو سکتی ہے۔ایک نئی تحقیق میں چائے کے استعمال سے جسم پر پڑنے والے مثبت اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
طبی ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ دن بھر میں چائے کے دو سے تین کپ پینے سے آپ اپنی ہڈیوں کو ٹوٹنے سے بچا سکتے ہیں۔طبی جریدہ ‘اوسٹیوپروسس انٹرنشنل جرنل ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں ماہرین نے اخذ کیا ہے کہ دن بھر دو سے
تین کپ چائے کے استعمال سے اوسٹیوپروسس (ہڈیوں کے کھوکھلا ہونے کے مرض ) سے تحفظ حاصل ہو سکتا ہے۔چینی محققین کے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ چائے پینے والوں کی کولہے کی ہڈی کی کثافت یا ٹھوس پن ان لوگوں کی نسبت زیادہ تھی جو چائے سے پر ہیز کرتے تھے جبکہ چائے پینے والوں میں کمر کی ہڈی میں فریکچر کا امکان ایسے لوگوں کی نسبت کم تھا جو کبھی بھی چائے کو ہاتھ نہیں لگاتے ہیں۔محققین کے مطابق چائے میں شامل مقوی ‘فلیوونائڈس’ اس کی ایک وجہ ہو سکتا ہے یا پھر ہوسکتا ہے کہ چائے میں بھاری مقدارمیں شامل معدنیات اور کیمیائی اجزاء کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔مطالعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ چائے میں شامل کیمیائی اجزاء اوسٹیوپروسس لاحق ہونے کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں جبکہ دوسری طرف کافی سے ایسا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات موجود ہیں کیونکہ کافی میں کیفین کی مقدار زیادہ ہے جو جسم سے کیلشیم کے اخراج کا سبب بنتی ہے لیکن چائے میں ایسے اجزاء یا معدنیات موجود ہیں جو کیفین کے اثرات کی تلافی کر سکتے ہیں۔اوسٹیوپروسس ہڈیوں کی ایک عام بیماری ہیجس میں ہڈیوں کی کثافت یا ٹھوس پن میں کمی آجاتی ہے اور ہڈیاں بھربھری ہونے لگتی ہیں جس کی وجہ سے ہڈیاں لچکدار نہیں رہتیں اور اکثر عمر رسیدہ افراد میں کلایوں ، کولہوں یا ریڑھ کی ہڈی کا فریکچر ہوتا ہے۔
سائنسی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ چائے کے استعمال سے کسی بھی دوسری بیماری میں مبتلا ہونے کا کوئی بھی ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔طبی ماہرین نے کہا کہ دن بھر میں چائے کے دو سے تین کپ خاص طور پر مردوں اور عورتوں کے لیے زیادہ فائدہ مند دکھائی دیتے ہیں اور جو لوگ ہر روز چائے کی اتنی مقدار لیتے ہیں ان میں ۳۷ فیصد ہڈیوں کے فریکچر کا شکار ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔چینی محققین نے اپنے نتائج کا تجزیہ پچھلے ۱۴مطالعات کے ساتھ کیا ہے جس میں غذائیت اور کولہے کی ہڈی کے فریکچر کے خطرے کے حوالے سے مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔محققین نے۰۰۰،۲۰۰ افراد کے طرز زندگی کا مطالعہ کیا جس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ ان کے روزمرہ کے معمولات کس حد تک ان کی ہڈیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تجزیاتی مطالعے کی روشنی میں سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں چائے پینے کی عادت تھی ان میں کولہے کے فریکچر کا امکان دوسروں کے مقابلے میں کم تھا۔ایک سے دو کپ چائے پینے سے ہڈیوں کے فریکچر کا امکان ۲۸ فیصد کم ہوا جبکہ دو سے تین بار چائے پینے سے یہ امکان ۳۷ فیصد تک گھٹ گیا جبکہ دن بھر میں تین سے چار بار چائے پینے پر ہڈیوں کے ٹوٹنے کا امکان ۲۱ فیصد کم ہوا۔شنگھائی سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے بتایا کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ کیوں دن بھر میں دو سے تین کپ چائے پینے کے فوائد تین سے چار کپ پینے کے برابر نہیں ہیں البتہ ممکن ہے کہ ہمارے اعداد وشمار یہ ٹھیک طرح سے بتانے سے قاصر ہوں کہ چائے کس قدر ہماری ہڈیوں کی صحت کے لیے مفید ہے۔
محقق ٹم بونڈ نے کہا کہ چائے میںفلیوونائڈس flavonoids شامل ہے یہ مقوی کافی میں نہیں ہے اسی طرح چائے میں شامل اجزاء فلورائڈ، کیلشیم اور دیگر معدنیات ہڈیوں کو مضبوط بناتے ہیں۔سائنسدانوں کا خیال ہے کہ چائے میں شامل کیمیائی اجزاء ایک طرف تو نئی ہڈیوں کی تشکیل کو تیزکرتے ہیں تو دوسری طرف پہلے سے کمزور ہڈیوں کے ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو سست کرتے ہیں۔برصغیر میں چائے کی مقبولیت انگریز سرکار کی مرہون منت ہے جو پہلی بار اسے ہندوستان میں لے کر آئے تھے شروع شروع میں برٹش سرکار کی طرف سے لوگوں میں چائے مفت تقسیم کی گئی اور پھر رفتہ رفتہ چائے نے سب کو اپنا عادی بنالیا توپھر اس کی قیمت مقرر کر دی گئی۔
کہا جاتا ہے کہ چائے کے پودے کا اصلی گھر مشرقی چین، میانمار اور بھارت میں آسام کا علاقہ ہے جبکہ دنیا بھر میں متحدہ عرب امارات میں سب سے زیادہ چائے پی جاتی ہے جس کے بعد مراکش، آئر لینڈموریطانیہ اور ترکی کے لوگ چائے کے عادی پائے جاتے ہیں البتہ چائے کے شوق میں مبتلا قوموں کی فہرست میں برٹش دنیا بھر میں ساتویں نمبر پر ہیں۔