وادی کشمیر کرۂ ارض پر ایک ایسی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ ازخود (یعنی ماہر ڈاکٹر کا مشورہ لئے بغیر) ادویات استعمال کرتے ہیں- یہاں کی Drug Policy اور ڈرگ قوانین کے اطلاق کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی شخص کسی ڈاکٹری نسخے کے بغیر کوئی بھی دوائی حاصل کر سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ لوگ بیماری کی حالت میںنیم تربیت یافتہ نیم حکیم ادویات فروشوں کے مشورے پر عمل کرکے ادویات لی
تے ہیں۔اس طرح یہ لوگ نہ صرف اپنے آپ کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں بلکہ اپنی صحت کے ساتھ کھلواڑ کرکے اس نعمت کی ناشکری کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ ’’نیم حکیم خطری جان اور نیم ملا خطری ایمان‘‘ایک پرانی کہاوت ہے۔ اس کہاوت سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ جس طرح ایک انسان کو اپنے ایمان کی حفاظت کرنا لازمی ہے اسی طرح اپنے صحت کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی چیزنیم تربیت یافتہ شخص کے ہاتھوںمیں پڑ گئی تو یہ خطرے کی علامت ہے۔اس لئے جب بھی کوئی شخص اپنے مرض کا علاج کسی نیم حکیم سے کراتا ہے تو شفایابی کے بجائے مرض کے بڑھ جانے کے خدشات پیدا ہوتے ہیں۔امراض اور ادویات کے سلسلے میں ہماری وادی کی صورتحال یہ ہے کہ ہر کوئی شخص کسی نہ کسی بیماری کی نیم جانکاری رکھتا ہے اور اسی ادھوری جانکاری کی بنیاد پر مریض کو مفت مشورے فراہم کرتا ہے۔ کئی لوگ تو اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کسی دوسرے شخص کو طبی مشورہ دے کر ادویات لینے کی صلاح دیتے ہیں۔ حالانکہ کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوبیماریوں کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اور علامات ایک جیسی-اس طرح ایک تربیت یافتہ طبیب ہی مرض کی مکمل تشخیص کرکے بہتر علاج کرسکتا ہے- ایک بیمار بیماری کی حا لت سے نجات پانے کی خاطر ہر کسی کے مشورے پر عمل کرنا چاہتا ہے۔اس طرح بیمار کبھی کبھی ایک ایسی صورتحال کا شکار ہو جاتا ہے جہاں اس کے مرض کے علاج کے ممکنات کم ہو جاتے ہیں۔اگر کبھی کبھار کوئی مریض راحت محسوس کرتا ہے لیکن یہ راحت عارضی اور علامتی ہوتی ہے جبکہ از خود ادویات استعمال کرنے سے ایک انسا ن کے جسم و صحت پر ایسے برے اور مضر اثرات پڑتے ہیں جن کی وجہ سے بعد میں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔اب کوئی شخص کسی بھی بیماری کیلئے از خود دوائیاں لیتا ہے تو اکثر اوقات وہ اس قسم کی دوائیاں لیتا ہے جن سے بہت جلد ’’راحت‘‘ ملے۔اس قسم کی ادویات لینے میں بہت سے نیم حکیموں کے مشوروں کا عمل دخل ہوتا ہے۔ ان ادویات کو ہم عام زبان میںstrong medicinesیاfast acting medicinesکہتے ہیں- چنانچہ ایک عام آدمی کسی بھی دوائی کے مضر اثرات (side effect)سے اچھی طرح سے واقف نہیں ہوتا ہے اس لئے احتمال اس بات کا رہتا ہے کہ جو دوائی خود لی جاتی ہے وہ راحت دینے کے بجائے تکلیف کو اور بڑھادے۔ اس طرح دوائیاں لینے سے ایک مریض میں کسی مخصوص دوائی کے تئیں rsistanceبڑھ جاتی ہے اور پھر جب بعد میں مریض کو پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیماری میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے تو وہ ایک پیشہ ور ڈاکٹر سے رجوع کرتا ہے۔لیکن اس وقت ایک ڈاکٹر کو ایسی ادویات تجویز کرنا پڑتی ہیں جو کافی اسٹرانگ(more stronger)ہوتی ہیں کیونکہ اس قسم کے مریض معمول کی ادویات کے تئیں resistantہوگئے ہوتے ہیں۔کشمیر میں ایک بات عام ہو گئی ہے کہ یہاں بیچی جانے والی ادویات غیر معیاری ہوتی ہیں اور کسی بھی مریض کے مرض پر کوئی اثر نہیں کرتیں۔لیکن کسی نے اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی ہے کہ لوگ از خود ادویات کا بے جا استعمال کرکے ادویات کے تئیں اپنی resistanceبڑھادیتے ہیں۔ میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرتا کہ جو بھی ادویات یہاں دستیاب ہیں وہ سب کی سب اعلیٰ معیار کی ہیں کیونکہ کچھ ادویات کا غیر معیاری ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ادویات کے بے اثر ہونے کیلئے ہماری self medicationکا بھی ہاتھ ہے۔