فرانسیسی پارلیمان میں منظور کردہ قانون کے تحت جہاد پر جانے کی منصوبہ بندی کرنے والے کسی بھی شخص پر سفری پابندی عاید کی جاسکے گی۔
فرانس کی پارلیمان نے دہشت گردی کے انسداد کے لیے ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے۔اس کے تحت جہاد پر جانے کی منصوبہ بندی کرنے والے کسی بھی شخص پر سفری پابندی عاید کی جاسکے گی۔
اس قانون کے تحت مشتبہ فرانسیسی شہری کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ چھے ماہ کے لیے ضبط کیا جاسکے گا اور اس کے بعد اس کی صرف دوسال کے لیے تجدید کی جائے گی۔یہ مدت گزرنے کے بعد مشتبہ شخص کو دوبارہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کی تجدید کرانا ہوگی۔
اس قانون کے تحت ازخود دہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو سزا دی جاسکے گی اور فرانس کی سلامتی کے لیے کسی بھی ممکنہ خطرے کا موجب بننے والے یورپی یونین کے رکن ممالک کے کسی بھی شہری کے فرانسیسی سرزمین میں داخلے کو روکا جا سکے گا۔
اس قانون کی فرانسیسی پارلیمان نے ایسے وقت میں منظوری دی ہے جب فرانسیسی حکام اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ عراق اور شام میں لڑائی میں حصہ لینے کے لیے جانے والے شہری ملک لوٹنے کے بعد حملے کرسکتے ہیں اور ملکی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب بن سکتے ہیں۔
فرانسیسی سینیٹ کے ارکان کی اکثریت نے اس قانون کے حق میں ووٹ دیا ہے لیکن گرین اور دائیں بازو کی جماعتوں کے ارکان نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جبکہ کمیونسٹ ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا ہے۔ وہ اس خدشے کا اظہار کرچکے ہیں کہ اس قانون سے شہری آزادیوں پر قدغنیں لگ جائیں گی۔
فرانس میں آن لائن حقوق کا دفاع کرنے والے ایک گروپ ”لا قادریچر دو نیٹ” نے قبل ازیں اس بل کی سخت مخالفت کی تھی ،اس کی مذمت کی تھی اور اس کو ”نامناسب ،خطرناک اور آزادیوں کے لیے تباہ کن” قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک ہزار سے زیادہ شہری یا فرانس میں مقیم لوگ جہادی نیٹ ورکس کی سرگرمیوں میں شریک ہیں اور وہ ممکنہ طور پر عراق اور شام میں مختلف گروپوں میں شامل ہوکر لڑرہے ہیں۔ان میں سے چھیالیس مارے جاچکے ہیں۔
واضح رہے کہ مختلف یورپی حکومتوں نے گذشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران شامی تنازعے میں شدت آنے کے بعد اپنے ہاں انسداد دہشت گردی کے قوانین کو سخت کیا ہے۔ جون میں نو یورپی ممالک نے جنگجوؤں کی سرگرمیوں سے متعلق انٹیلی جنس کے اشتراک میں اضافے سے اتفاق کیا تھا اور انھوں نے سخت گیر مواد کی حامل متعدد ویب سائٹس کو بند کردیا تھا تاکہ یورپی شہریوں کو شام میں جاری جنگ میں حصہ لینے کے لیے جانے سے روکا جاسکے۔
فرانس نے گذشتہ صدی کے دوران شمالی افریقہ کے متعدد ممالک کو اپنی کالونیاں بنائے رکھا تھا اور اس کی چیرہ دستیوں کا خمیازہ اب اسے اسلامی جنگ پسندوں کی گاہے گاہے جوابی کارروائیوں کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔نیز فرانس میں یورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی آباد ہے اور وہاں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔
فرانسیسی حکام یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ شام اور عراق میں جاری لڑائیوں میں شریک فرانسیسی شہری وطن لوٹنے کے بعد اپنی سرزمین میں دہشت گردی کے حملے کرسکتے ہیں۔مہدی نموشے ایسا ہی ایک فرانسیسی شہری تھا۔اس کو مئی میں برسلز میں ایک یہودی عجائب گھر پر فائرنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔اس حملے میں چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔اس کے بارے میں شُبہ تھا کہ اس نے گذشتہ سال کا بیشتر عرصہ شام میں گزارا تھا اور صدر بشارالاسد کے مخالف اسلامی جنگجو گروپوں میں شامل ہوکر لڑتا رہا تھا۔