نئی دہلی۔ہر زمانے میں عظیم ہندوستانی آل رائونڈروں میں سے ایک کپل دیو نے کوچ کے طور پر سچن تندولکر کو مایوس کیا تھا جس کا خلاصہ یہ عظیم بلے باز نے اپنی حال میں جاری سوانح عمری ’پلیئنگ اٹ مائی وے‘ میں کیا ہے۔تندولکر نے دعوی کیا ہے کہ آسٹریلیا کے دورے کے دوران وہ کپل سے کافی مایوس ہوئے تھے کیونکہ کوچ نے اسٹریٹجک بات چیت میں خود کو شامل نہیں کیا تھا۔ تندولکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انہوں نے کپل سے کافی امیدیں لگا رکھی تھی۔انہوں نے لکھا ہے جب میں دوسری بار کپتان بنا تو ہمارے ساتھ کوچ کے طور پر کپل دیو تھے۔ وہ ہندوستان کی طرف سے کھیلنے والے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک اور دنیا کے ہر زمانے بہترین آلرائونڈروں میں ایک تھے اور میں نے آسٹریلیا میں ان سے کافی امیدیں لگا رکھی تھی۔تندولکر نے کہامیں ہمیشہ سے کہتا رہا ہوں کہ کوچ کا کردار اہم ہوتا ہے۔ وہ ٹیم کیلئے حکمت عملی بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آسٹریلیا کے سخت دورے کے دوران کپل سے بہتر کون ہو سکتا تھا جو میری مدد کرتا۔انہوں نے لکھا ہے لیکن ان کی شرکت کا طریقہ اور ان کی خیال کے عمل محدود تھے جس سے مکمل ذمہ کپتان پر آ گیا تھا۔ وہ بات چیت میں شامل نہیں رہتے تھے جس سے کہ ہمیں میدان پر مدد ملتی۔تندولکر نے اس کے ساتھ ہی اپنی مایوسی بھی ظاہر کی ہے کہ کس طرح سے کپتان کے طور پر ان کے کچھ فیصلے نہیں چلے جبکہ دیگر کپتانوں کے اسی طرح کے فیصلے صحیح ثابت ہوتے تھے۔یہ اسٹار بلے باز نے 1997 کی شارجہ سیریز کا ذکر کیا ہے جب انہوں نے رابن سنگھ کو تیسرے نمبر پر بلے بازی کیلئے اتارا لیکن بائیں ہاتھ کا یہ بلے باز ناکام رہا اور میڈیا نے اس کیلئے ان کی سخت تنقید کی۔تندولکر نے لکھا ہے پاکستان کے خلاف 14 دسمبر کو میچ دکھا
تا ہے کہ کس طرح سے چیزیں میرے دوستانہ نہیں رہی۔ میں سلیکٹروں کے اصرار پر اس سیریز میں نمبر چار پر بیٹنگ کر رہا تھا۔ سورو اور نوجوت سدھو نے پاکستان کے خلاف ہمیں اچھی شروعات دلائی اور جب سدھو آؤٹ ہوا تب اسکور دو وکٹ پر 143 رن تھا۔ میں نے آل راؤنڈر رابن سنگھ کو تیزی سے رن بنانے کے مقصد سے کریز پر بھیجا۔ میں نے کافی سوچ کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔انہوں نے لکھا ہے لیگ اسپنر منظور اختر دائیں ہاتھ کے بلے باز کیلئے راؤنڈ دی وکٹ گیند بازی کر رہا تھا۔ رابن سنگھ کو اس لئے بھیجا گیا کہ بائیں ہاتھ کو بلے باز ہونے کے سبب وہ لوگ اسپن بہتر پر کھیل سکتا ہے اور کچھ بڑے شاٹ بھی لگا سکتا ہے۔ لیکن رابن بغیر کھاتہ کھولے درمیانے رفتار کے گیندباز اظہر محمود کی گیند پر آؤٹ ہو گیا اور یہ استعمال بری طرح ناکام رہا۔ میڈیا میں مجھ سے پہلے رابن کو بھیجنے کے فیصلے پر سخت نکتہ چینی ہوئی اور اسے شکست کا سبب مانا گیا۔تندولکر نے کہاایک ماہ بعد جنوری 1998 میں اظہر دوبارہ کپتان بن گیا اور انہوں نے ڈھاکہ میں پاکستان کے خلاف سلور جوبلی انڈپینڈیس کپ میں یہی طریقہ اپنایا۔ سورو اور میں نے تیزی کے ساتھ آغاز کیا اور اس بار بھی رابن کو تیسرے نمبر پر بھیجا گیا۔ رابن نے 82 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔انہوں نے کہایہ یقینا بہت بڑا جوا تھا کیونکہ اسے آف اسپنر ثقلین مشتاق کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تھا اور یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کو آف اسپنروں کو کھیلنے میں پریشانی ہوتی ہے۔تندولکر کے مطابق اب اسی استعمال کی ماسٹر اسٹروک کہہ کر تعریف ہونے لگی تھی۔ کہا بھی جاتا ہے کہ کامیابی کا کریڈٹ لینے والے کئی ہوتے ہیں لیکن ناکامی پر کوئی سامنے نہیں آتا۔