معصوم بچوں کا قاتل جنگجو منشیات کا بڑا تاجر رہا ہے
شام اور عراق میں دولت اسلامی’’داعش‘‘ کے مظالم کی نت نئے اور روح فرسا واقعات اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔ اپنی طاقت کا سکہ جمانے کے لیے داعش کے جنگجو جس وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں دور حاضر میں اس کی کوئی نظیر نہیں م
لتی۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق داعش کی سفاکیت کا ایک تازہ واقعہ برطانوی اخبار ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘ نے رپورٹ کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شام میں داعش کی صفوں میں شامل دہشت گرد نے ایک خاندان کے بچوں اور بڑوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کے سر تن سے جدا کرنے کے بعد اسکول کے در و دیوار پر لٹکا کر بدترین درندگی کا مظاہرہ کیا۔
رپورٹ کے مطابق یہ وقعہ حال ہی میں ابو عبداللہ نامی ایک شخص نے بیان کیا جو داعش کے جنگجو صدام جمال کا ذاتی محافظ بھی رہ چکا ہے۔ جب اس نے داعش کے مظالم کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھا تو وہ بھاگ گیا تھا۔ ابو عبداللہ نے بتایا کہ صدام جمال نامی ایک دہشت گرد پہلے شام کی اعتدال پسند فوج”جیش الحر” میں شامل تھا، اس دوران اس کے امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ بھی روابط تھے اور وہ منشیات کا بھی کاروبار کرتا تھا۔ بعد ازاں اس نے داعش میں شمولیت اختیار کر لی اور نہتے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے لگا۔
ابو عبداللہ نے صدام جمال کی دہشت گردی کے واقعے کا چشم دید احوال بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ ایک دفعہ صدام جمال نے شام کے ایک پناہ گزین خاندان کو اس کے خیمے سے باہر نکالا۔ ان میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ سب کو ایک قطار میں کھڑا کیا اور یکے بعد دیگرے تمام افراد کے سرتن سے جدا کرکے اسکول کی دیواروں پر معلق کر دیے۔ یہ ایسا روح فرسا واقعہ تھا جس کے بعد میں نے خود بھی صدام جمال کو چھوڑ کر فرار کا فیصلہ کیا۔
ابو عبداللہ نے کہا کہ داعشی جنگجو نے پہلے بچوں کو ذبح کیا تاکہ ان کے والدین کو اپنی بربریت دکھا سکے۔ سب سے چھوٹے لڑکے کی عمر تیرہ برس ہو گی۔ پہلے اس کا سر تن سے جدا کیاگیا اور اسے بدقسمت ماں، باپ کے آنکھوں کے سامنے اسکول کے دروازے پر لٹکا دیا۔ پھر یکے بعد دیگر تمام افراد کو نہایت اذیت ناک طریقے سے قتل کرنے کے بعد ان کے سر بھی اسکول کی دیواروں اور دروازوں پر معلق کر دیے۔
ابو عبداللہ نے بتایا کہ اس نے جب یہ سارا منظر دیکھا تو داعش سے فرار کا فیصلہ کیا کیونکہ جو کچھ داعشی جنگجو اس کے سامنے کیے جا رہے تھے اس کا دین اسلام کی تعلیمات کےساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
منشیات کی تجارت سے داعش میں شمولیت تک
مفرور شامی شہری ابو عبداللہ نے بتایا کہ صدام جمال کا تعلق شام سے ہے، جب صدر بشارالاسد کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہوئی تو وہ جیش الحر میں شامل ہو گیا۔ اس سے قبل وہ منشیات کا کاروبار کرتا رہا ہے۔ اس کے امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ روابط تھے۔ کچھ عرصہ جیش الحر کے ساتھ رہنے کے بعد اس نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی اور اسی کا ظالمانہ طریقہ واردات بھی اپنا لیا۔
ابو عبداللہ نے بتایا کہ شام میں تحریک انقلاب کےبعد صدام جمال کے لیے منشیات کے کاروبار کے لیے حالات سازگار ہو گئے اور اس نے کھلے عام یہ مکروہ دھندہ شروع کر دیا تھا جس میں اس نے بے پناہ دولت کمائی۔ داعش میں شمولیت کے بعد اس نے معصوم لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ جمال کی سفاکیت کے بے شمار دیگر واقعات میں شام کے ایک پناہ گزین خاندان کا قتل بھی شامل ہے جس کے بعد ابو عبداللہ نے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ اس نے بتایا کہ داعش کو ایک شامی خاندان کا ایک شخص مطلوب تھا جس کی پاداش میں انہوں نے پورے کے پورے خاندان کو نہایت بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
ابو عبداللہ نے بتایا کی داعشی جنگجو خود دھڑا دھڑ سگریٹ نوشی کرتے ہیں لیکن ان کے سامنے کوئی عام شہری سگریٹ نوشی کرتا پکڑا جاتا ہے تو اسے گرفتار کرنے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار داعش کی پہچان بن چکا ہے۔ نیز داعش میں شامل بے شمار جنگجو ایسے بھی ہیں جنہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات تک کا علم بھی نہیں۔ وہ صرف بندوق چلانا جانتے ہیں