کانپور (نامہ نگار )یوں تو معاشرہ میں بہت سی خرابیاں ہیں لیکن کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ خاص طور سے دودھ اور دوا میں ملاوٹ ایک خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ اور اس سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ سے لیکر سنتری تک ، انتظامیہ افسران سے لیکر چپراسی تک امیر سے لیکر غریب ، پریس اور میڈیاکے لوگ سب اس کی زد میں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ اس سے محفوط ہیں ۔ اگر ہم کسی سے کہیں کہ آپ اپنے بچوں کو نقصان کرنے والی اشیاء کھلائیے تو آپ کاجواب کیا ہوگا۔ اس سے بڑی پریشانی او ر کیا ہوگی کہ ہم اپنے ہی پیسوں سے ملاوٹ کی شکل میں زہر خود اور بچوں کو دے رہے ہیں۔ اور خاموش بھی ہیں۔ جب ملک پر کوئی حملہ کرتاہے تو کچھ لوگوں کی موت ہوتی ہے لیکن ملک کے اندر بیٹھے ہوئے دشمن جب ملاوٹ کرتے ہیں تو ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ بیمار ہوکر مرجاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کوکمزور کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں بیدار ہونا چاہئے کیونکہ یہی وقت اور انسانیت کا تقاضا ہے۔ کانپور کی تمام ذمہ دار تنظیموں اور علماء کا ایک جلسہ پانچ اکتوبر کو سی ایس اے میکراورٹ گنج میں منعقد ہوا ۔ اس جلسہ میں ڈاکٹر غیاث الدین،ڈاکٹر جگدیش راوت، ابوالبرکات نجمی،شہر قاضی عالم رضا نوری ، مولانا ایم ایم اسامہ ، حافظ قدوس اور آچاریہ پرمٹ مندر ، ڈاکٹرحنا ، سبھاشنی علی اور امنگ اگروال نے اپنے اپنے خیالات رکھتے ہوئے اتفاق رائے سے ملاوٹ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ مذکورہ خیالات کا اظہار یوتھ سوشل ویلفیر آرگنائزیشن کے صدر ڈاکٹر غیاث الدین محمد نے کیا۔ انہوں نے کانپور کی ذمہ دار تنظیموں اور مختلف مذاہب کے علماء کی جانب سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنا اخلاقی فرض اداکرتے ہوئے خوردنی اشیاء میں ملاوٹ خاص طور سے دودھ ، دوا کے خلاف مہم میں تیزی لائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ قانون میں ترمیم کے ذریعہ ملاوٹ کو روکنے کے لئے کارگر کوشش کی جائے اور اس کے لئے سخت ترین قانون بنایا جائے۔