عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ برس خسرے کی بیماری کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہوا، جس کی وجہ اس متعدی بیماری کی روک تھام کے لیے متعدد علاقوں تک ویکسین کی فراہمی میں خلل ہے۔جمعرات کے روز عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن ۱۳میں اس بیماری کے نتیجے میں ایک لاکھ ۴۵ہزار افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن ۲۰۱۲میں یہ تعداد ایک لاکھ ۲۲ہزار رہی تھی۔ رپورٹ کے مطابق خسرے سے ہونے والی ہلاکتوں میں چین، کانگو اور نائجیریا میں اس بیماری کا پھیلاؤ دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپ
ی ممالک جارجیا، ترکی اور یوکرائن میں بھی اس متعدی بیماری نے درجنوں افراد کی جان لے لی۔عالمی ادارہ صحت کے اِمیونائزیشن کے شعبے سے وابستہ پیٹر سٹیربیل کے مطابق، ’’اس خطرے کو روکا نہ گیا تو اس بیماری کی وجہ سے ہلاکتوں میں کمی کی عشروں سے جاری کوششوں کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کئی ممالک کو اس بیماری کی روک تھام کو اپنی بڑی ترجیحات میں شامل کرنا ہو گا۔ اس بیماری سے ہلاکتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔اس بیماری سے ہلاکتوں میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا گیا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس خسرے کی وجہ سے ہونے والی اموات سن ۲۰۰۰کے مقابلے میں ۷۵فیصد کم رہیں تاہم ہزاریہ اہداف میں سن ۲۰۱۵تک اس بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں میں ۹۵ فیصد کمی پر اتفاق کیا گیا تھا۔واضح رہے کہ خسرے کی بیماری بچوں میں اموات کی بڑی وجہ رہی ہے۔ عالمی سطح پر کم عمر بچوں کو اس بیماری کا باعث بننے والے وائرس سے تحفظ کے لیے ویکسین پلانے کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس کوششوں کی وجہ سے اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے، تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس بیماری کی وجہ سے گزشتہ برس ہلاکتوں میں پھر اضافہ خطرے کی نئی گھنٹی ہے۔اس عالمی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خسرے کی وجہ سے ۷۰ فیصد سے زائد ہلاکتیں چھ ممالک میں ہوئیں، جن میں بھارت، نائجیریا، پاکستان، ایتھوپیا، انڈونیشیا اور ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو شامل ہیں۔