اس تحقیق کے نتائج سے پتہ چلا کہ ایسے مردوں کی اموات کی شرح کافی زیادہ تھی جو روزانہ تین گلاس یا اس سے بھی زیادہ دودھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔سویڈن کی اْپسلا یونیورسٹی کے محققین بیس سالوں سے 61 ہزار خواتین کا مشاہدہ کر رہے تھے اور سات سال تک انہوں نے 45 ہزار مردوں پر ریسرچ کی۔ اس دوران یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان کی دودھ کی کھپت، موت کی بڑھی ہوئی شرح اور ہڈیوں کے اکثر و بیشتر ٹوٹنے کے واقعات کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ اپنے ان مشاہدات کو محققین نے دستاویزی شکل میں محفوظ کرلیا۔اس تحقیق کے نتائج سے پتہ چلا کہ ایسے مردوں کی اموات کی شرح کافی زیادہ تھی جو روزانہ تین گلاس یا اس سے بھی زیادہ دودھ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ دوسری جانب دودھ کا زیادہ استعمال کرنے والی خواتین میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی شرح کافی زیادہ پائی گئی اور اس بیماری کا شکار مرد نظر نہیں آئے۔
سویڈن کے محققین کے مطابق گائے کے دودھ میں ’ ڈی گیلیکٹوز‘ بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔دودھ کی صنعت کی ایسو
سی ایشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار ’ ایکہارڈ ہوئزر‘ نے تاہم سویڈن کے محققین کی اس تحقیق کے نتائج کو اس طرح منظرعام پر لانے کے عمل پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مطالعاتی جائزے غلط تاثر دیتے ہیں۔ اْدھر اس جائزے کی رپورٹ کے ایک شریک مصنف ’کارل میشائلز زون‘ بھی اس بارے میں کہتے ہیں، ” ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ دودھ کے زیادہ استعمال کا اموات کی بڑھی ہوئی شرح اور ہڈیوں کے ٹوٹنے کی بیماری سے کوئی براہ راست تعلق ہے۔ دودھ اس معمے کا محض ایک حصہ ہے”۔
اولین مشتبہ
سویڈش محققین نے تاہم ایک مبینہ مجرم کی شناخت کر لی ہے۔ وہ ہے ’ ڈی گیلیکٹوز‘ جس کے بارے میں ریسرچرز کا خیال ہے کہ یہ شکر کی ایک قسم ہے اور یہ سب سے زیادہ گائے کے دودھ میں پائی جاتی ہے۔ محققین نے چوہوں اورمویشیوں پر ڈی گیلیکٹوز شوگر کا تجربہ کیا جس سے پتہ چلا کہ یہ جلدی عمر رسیدہ ہونے لگے اور ان کی اموات بھی جلد واقع ہوئیں۔ محققین کی دودھ کی مذکورہ مقدار سے مراد دو گلاس دودھ ہے۔ جبکہ سویڈش ریسرچرز نے دودھ کی دیگر مصنوعات مثلاً پنیر اور دہی کو ان خطرات سے پاک قرار دیا ہے۔ سویڈش ریسرچرز نے تاہم پنیر اور دہی میں ’ ڈی گیلیکٹوز‘ کی زیادہ مقدار نہیں بتائی ہے۔اس تجزیاتی رپورٹ کے شریک مصنف کارل میشائلز زون کا کہنا ہے کہ گائے کے دودھ کے مقابلے میں دودھ کی مْخمر مصنوعات میں ’ ڈی گیلیکٹوز‘ کی مقدار واضح طور پر کم ہوتی ہے۔
اْدھر دودھ کی صنعت کی ایسو سی ایشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار ’ ایکہارڈ ہوئزر‘ نے اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ سویڈن کے مححققین نے جو تجربہ چوہوں پر کیا ہے اْس کے نتائج انسانوں پر بھی ویسے ہی ثابت ہوں گے۔ وہ کہتے ہیں، ” ظاہر ہے کہ جب ایک جانور کو حد سے زیادہ شوگر دی جائے گی تو وہ مر جائے گا تاہم شوگر کی یہ مقدار انسانوں کے دن میں تین گلاس دودھ پینے سے بھی حاصل نہیں ہوگی۔ ویسے بھی بالغ افراد عموماً دن میں تین گلاس دودھ نہیں پیتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ دودھ میں پائے جانے والے ’ ڈی گیلیکٹوز‘ کے نقصان کے بارے میں پیش کیا جانے والا مفروضہ اگر صحیح ہے تو عورتوں کو اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلانا چاہیے کیونکہ ماں کے دودھ میں ’ ڈی گیلیکٹوز‘ کی مقدار گائے کے دودھ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خود سویڈش مححقین نے کہا ہے کہ اس بارے میں ابھی مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔