جنیوا۔؛امریکا کے ایک سینیر عہدے دار کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں کے لیے ایران کے ساتھ اس کے جوہری پروگرام کے تنازعے پر کسی معاہدے تک پہنچنا بہت مشکل ہوگا۔
اس امریکی عہدے دار نے یہ بات بدھ کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل رکن ممالک اور جرمنی کے ایران کے ساتھ مذاکرات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں ہم یہ معاہدہ کرسکتے ہیں لیکن یہ بہت مشکل ہوگا۔
اس عہدے دار کا کہنا تھا کہ اگر ایران کے ساتھ اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے لیے کوئی ابتدائی معاہدہ طے بھی پاجاتا ہے تو اس کے خلاف عاید کردہ پابندیاں بدستور برقرار رہیں گی اور امریکا ان کا نفاذ جاری رکھے گا۔
جنیوا میں ایران اور چھے بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا سیشن آغاز کے صرف دس منٹ کے بعد ہی ختم ہوگیا تھا۔سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف تعارفی سیشن تھا اور اس کے بعد دوطرفہ بات چیت ہوگی۔
درایں اثناءروسی صدر ولادی میر پوتین نے اس توقع کا اظہار کا ہے کہ جنیوا مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوگا۔انھوں نے یہ بات اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے ماسکو میں مذاکرات کے بعد کہی ہے لیکن انھوں نے اس کی مزید کوئی تفصیل نہیں بتائی۔
نیتن یاہو نے اس موقع پر کہا کہ وہ ایران کے جوہری تنازعے کے سفارتی حل کو ترجیح دیتے ہیں لیکن یہ حقیقی ہونا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ شام نے جس طرح اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے کے لیے پیش کردیا ہے،اسی طرح ایران بھی یورینیم کی افزودگی اور سینٹری فیوجز کا کام بند کردے۔
دوسری جانب فرانسیسی صدر فرانسو اولاندنے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغرب کے ساتھ اپنے جوہری ہتھیاروں کے تنازعے سے متعلق سوالوں کا جواب دے اور اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے سے گریز کرے۔
ان کا اشارہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس بیان کی جانب تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ کسی کو بھی ایران کے جوہری حقوق سے دستبردار ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران میں باسیج ملیشیا کے جنگجوؤں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میں جوہری حق سمیت ایرانی قوم کے حقوق کومستحکم بنانے پر زوردوں گا”۔انھوں نے کہا کہ ایرانی قوم کے حقوق سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹا جائے۔