لکھنؤ(محمد عاصم بیگ)معمولی واردات کو نظر انداز ر کرکے صبر کرنے والی خواتین کو موقع ملا تو انہوں نے اپنی ساری جھجھک ختم کردی اور ناانصافی کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنے لگیں۔ اس میں ان کا ساتھ دیا وومن پاور لائن ۱۰۹۰ نے۔ گذشتہ دو برسوں میں ۱۰۹۰ میں ۲لاکھ ۸۸ہزار ۱۸۸ عورتوں اور طالبات نے شکایت درج کرائی۔ اس میں سے دو لاکھ ۸۲ہزار ۹۴۵معاملات کا پولیس نے نمٹارہ بھی کیا۔ یہ شکایتیں چھیڑ خانی اور موبائل پر پریشان کرنے سے متعلق تھیں۔ پولیس نے زیادہ تر ملزمان کو کونسلنگ کے ذریعہ سمجھایا۔ جو نہیں مانے انہیں جیل بھیجا گیا۔ کل ۲۸۲ لوگوں کو ہی جیل بھیجا گیا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جیل جانے والے سبھی لوگوں کی عمر ۴۵سال سے زیادہ ہے۔
وومن پاور لائن ۱۰۹۰ کے افسران نے کونسلنگ میں محسوس کیا کہ سماجی
بندشوں کی وجہ سے عورتیں اپنے ساتھ ہونے والی واردات کو نظر انداز کر دیتی تھیں رشتہ داراور گھر والے بھی انہیں صبر کا سبق پڑھاتے تھے بدنامی کی وجہ سے عورتیں گھٹن کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ ان شکایتوں پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ عورتوں کے ساتھ ہونے والی ۹۲فیصد واردات گھر کے اندر ہوتی ہیں یعنی زیادہ ترجرم اپنے ہی کرتے ہیں۔ ۱۰۹۰ کو موصول ہونے والی شکایتوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ ۹۲فیصد طالبات نے شکایت درج کرائی۔ زیادہ تر کا الزام موبائل پر پریشان کرنے سے متعلق تھا۔ شکایت کرنے والوں میں ۳۶فیصد گھریلوعورتیں ہیں جبکہ ۱۲فیصد ملازمت پیشہ خواتین ہیں۔ شکایتوں کے نمٹارے پر نظر ڈالی جائے تو موصول دولاکھ ۸۸ہزار ۱۸۸شکایتوں میں سے دولاکھ ۳۴ہزار ۶۴۸ شکایتوں کا کونسلنگ کے ذریعہ نمٹارہ کیا گیا۔ ۴۲۳۲۳شہدوں کے گھروالوں کو اطلاع دے کر ان پر قابو پایا گیا۔ وہیں ۵۶۹۲شہدوں کے کنبہ والوں کو دفتر طلب کر کے ان سے ضمانت کے طورپر معافی نامہ تحریری طور پر حاصل کیا گیا۔معافی نامہ کے بعد اگروہ پھر سے غلطی کرتا ہے تو اس کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا جائے گاجو ۲۸۲لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جن شہدوں نے انسانیت کی دہلیز پار کر دی تھی ۱۰۹۰کی ٹیم نے گرفتار کر کے جیل کا راستہ دکھایا۔ اب تک ۲۸۲لوگوں کو جیل بھیجا جا چکا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جیل جانے والے سبھی لوگوں کی عمر ۴۵سال سے زیادہ ہے۔
خواتین کو ۱۴ سکینڈ سے زیادہ غور سے دیکھنا جرم
ملک کا قانون کہتا ہے کہ اگر کسی خاتون کو ۱۴سکینڈ تک مسلسل گھور کر دیکھا تو وہ جرم کے زمرے میں آجاتا ہے۔ اس بات کو سڑک پر چلنے والا شخص بھلے ہی سنجیدگی سے نہ لے لیکن اگر کسی خاتون کو اتنی دیر تک گھور کر دیکھا اور اس نے شکایت کر دی تو شاید جیل بھی جانا پڑ جائے۔ آئی جی خواتین سیل نونیت سکیرا کا کہنا ہے کہ اگر اس پہلو پر شکایت ملے اور اسے عمل میں لایاجائے تو۹۰فیصد نوجوان جیل میں ہوںگے۔ کیونکہ سڑک پر چلنے والی ہر خاتون یا طالبہ سے چھیڑ خانی کا آغاز نظر سے ہی شروع ہوتا ہے اور جب شہدے کو محسوس ہوتا ہے کہ خاتون یا طالبہ ڈر رہی ہے تو اس کی ہمت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔