امریکی ناول نگار، شاعر اور سماجی رضاکار مارج پیئریسی نے ایک بار کہا تھا “ایک مضبوط خاتون وہ کرنے کے لیے پْرعزم ہوتی ہے جسے دوسرے نہ کرنے کا عزم کریں”۔فرح خان نے اس بات کو بار بار ثابت کیا ہے، انہوں نے ا
پنے طویل کریئر (جو تاحال جاری ہے) کے دوران سربلند ہوکر آگے بڑھتے ہوئے مختلف مسائل پر قابو پایا ہے۔وہ ہندوستان کی مقبول ترین کوریو گرافرز میں سے ایک ہیں جنھوں نے لگ بھگ پوری ہندی فلم انڈسٹری کے ساتھ کام کیا ہے، لاتعداد ٹی وی ریئلٹی شوز میں بطور جج شرکت کی ہے، اپنے سلیبرٹی ٹاک شو کی میزبانی کی ہے، فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ ہدایتکار اور پروڈیوسر کے طور پر بھی کام کیا ہے اور اپنے ہر کردار میں کامیاب رہی ہیں۔فرح نے ہدایتکاری کا آغاز 2004 میں فلم ‘میں ہوں ناں’ سے کیا، جس میں مرکزی کردار ان کے دوست اور انڈین سپر اسٹار شاہ رخ خان نے ادا کیا، یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور اس برس میں سب سے زیادہ کمانے والی دوسری بڑی فلم قرار پائی۔ان کی ہدایتکاری سے سجی دوسری فلم ‘اوم شانتی اوم’ (2007) میں ریلیز ہوئی اور متعدد باکس آفس ریکارڈز توڑ دیئے، ‘تیس مار خان’ (2010) زیادہ کامیاب تو ثابت نہ ہوسکی مگر اس سے فرح کا حوصلہ متاثر نہیں ہوا۔ان کی نئی فلم ‘ہیپی نیو ایئر’ (ایچ این وائی) نے بولی وڈ کی پہلے روز سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم کا ریکارڈ قائم کیا اور اب تک وہ مقامی مارکیٹ میں دو سو کروڑ انڈین روپے جبکہ دنیا بھر میں چار سو کروڑ انڈین روپے کما چکی ہے۔جب ڈان کو اس باصلاحیت خاتون سے انٹرویو کا موقع ملا تو ہمارا استقبال گرم جوش “اسلام و علیکم” کے ساتھ ہوا۔جب فرح سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں ‘ہیپی نیوایئر’ کے ریکارڈ توڑ بزنس کی توقع تھی تو ان کا جواب تھا “جب ہم اس طرح ایک بڑی فلم بناتے ہیں تو ہمیشہ ہی اس کی کامیابی کے لیے دعا اور توقع کرتے ہیں کیونکہ ہر شخص اپنی فلم کو کامیاب دیکھنا چاہتا ہے، مگر ہم نہیں جانتے تھے کہ وہ اتنی اچھی چلے گی یہی وجہ ہے کہ ہم بہت خوش ہیں، جب ایک بڑی فلم ریلیز ہوتی ہے تو ملے جلے تبصرے سامنے آتے ہیں، کچھ اس پر تنقید کرتے ہیں تو دیگر سراہتے ہیں، مگر باکس آفس پر اب تک اس کے چلنے سے ثابت ہوتا ہے کہ عوام کو یہ فلم بہت پسند آئی ہے”۔’ایچ این وائی’ میں وہ سب مصالحے شامل ہیں جو عوام کو اپنی جانب کھینچتے ہیں یعنی ایک بڑی اسٹار کاسٹ، عظیم الشان سیٹس، گانے اور رقص، خوبصورت سینماٹوگرافی اور مزاح، فرح فخریہ انداز میں بتاتی ہیں کہ وہ اسی طرز کا سینما ناظرین کو دینے کی خواہش رکھتی ہیں۔فرح: “میں چھوٹی و بیزارکن نہیں بلکہ صرف کمرشل فلمیں بناتی ہوں، یہاں تک کہ اگر میں نے ایسا کیا بھی تو بھی میری کوشش لوگوں کو تفریح فراہم کرنا ہوگی کیونکہ میں خود تفریحی فلمیں دیکھنا پسند کرتی ہوں، الفریڈ ہچکاک کہتے تھے کہ جو سب سے بڑا جرم آپ کرسکتے ہیں وہ ناظرین کو بور کرنا ہے اور میں ایسا نہیں کرنا چاہتی”۔اگرچہ اس فلم نے باکس آفس پر کروڑوں کمائے ہیں مگر اس پر شدید تنقید بھی ہو رہی ہے، فرح کے خیال کے مطابق “ایسا تو ہمیشہ سے ہو رہا ہے، ‘شعلے’ سے لے کر ‘امر اکبر انتھونی’ تک ہر بڑی فلم کو پہلے ہفتے کے دوران شروع میں اسی طرح کے ردعمل کا سامنا ہوا، بلکہ شعلے کو تو ابتدائی دو یا تین ہفتوں بعد فلاپ قرار دے کر سینما?ں سے ہٹا دیا گیا تھا، مگر ہماری فلم دو سو کروڑ سے زائد کما چکی ہے جس کا مطلب ہے کہ لوگ اسے پسند کر رہے ہیں، میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ایک فلم کو سانس لینے کا موقع فراہم کرنا چاہئے اور پہلے ہی روز اس پر جھپٹنا نہیں چاہئے”۔کیا یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ اسی طرح کی فلمیں عوام دیکھنا چاہتے ہیں؟فرح: “میں اس فکر میں نہیں پڑتی کہ کس کو کیا پسند آئے گا، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ‘میں ہوں ناں’ پاکستان میں اتنی اچھی چلے گی، جب بھی میری لندن یا امریکا میں پاکستانیوں سے ملاقات ہوتی ہے تو میرے لیے بہت زیادہ محبت اور لگا? کا اظہار کرتے ہیں جس کی وجہ ‘میں ہوں ناں’ ہے، جو کہ ہندوستان میں میری سب سے زیادہ تنقید کی زد میں آنے والی فلم تھی، اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی کچھ مخصوص افراد کی تنقید اور منفی سوچ ختم نہیں ہوسکی جن کا خیال ہے کہ میں ایک ہی طرح کی فلمیں بنا سکتی ہوں، ان کا خیال ہے “ایک خاتون کس طرح ایک بڑی کمرشل فلم کی ڈائریکٹر ہوسکتی ہے، اسے تو خواتین کے مسائل پر مبنی حساس اور چھوٹی فلمیں تیار کرنی چاہئے، ایسی فلمیں بنتی بھی ہیں مگر مجھ پر کبھی انہیں بنانے کا دبا? نہیں ہوتا”۔فرح کا کہنا تھا کہ ‘خاتون ڈائریکٹر’کا عنصر ہی تنقید کے پیچھے ہے کیونکہ لوگ دیگر ڈائریکٹر کی بہت بری فلموں کو فراموش کردیتے ہیں۔تاہم فرح تنقید سے متاثر نہیں ہوتیں انہوں نے ‘میں ہوں ناں’ کے بعد سے بہت کچھ سہا اور ان کے اپنے الفاظ میں وہ “سینٹ فرح” بن چکی ہیں جسے ناقدین کی اتنی توجہ ملتی ہے۔وہ کہتی ہیں کوئی بھی مثبت چیزوں کی بات نہیں کرتا “بومن ایرانی نے مجھے بتایا تھا کہ یہ ہماری کمزوری ہے کہ ہم اچھی چیزوں کو فراموش کردیتے ہیں اور اپنی توجہ تنقید پر موکوز کردیتے ہیں، ہزاروں افراد ہمیں سراہتے ہیں مگر ہم صرف ان دو کی بات کرتے ہیں جو ہم پر ضرب لگاتے ہیں، میں بہت خوش ہوں کہ میری فلم پاکستان میں بھی بہت اچھی چلی، میں کبھی اپنی فلموں میں حب الوطنی، پاکستان مخالف جذبات یا اسی طرح کی دیگر چیزیں کرنے کی کوشش نہیں کرتی”۔ان کی فلم کو ایک اور تنازع کا سامنا اس وقت ہوا جب لیجنڈ کوریوگرافر سروج خان نے ‘ہیپی نیو ایئر’ میں اپنی شخصیت کو مذاق بنائے جانے کو زیادہ پسند نہیں کیا اور ڈائریکٹر پر برس پڑیں، مگر فرح اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ وہ سروج خان کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ تو فلموں میں ان لوگوں کو ہی شامل کرتی ہیں جن سے وہ متاثر ہیں یا ان کی پرستار ہیں اور سروج کا انتخاب بھی اسی لیے کیا گیا۔بڑی اسٹار کاسٹ، یعنی آج کی ہندی فلمی صنعت کے چند بڑے ناموں کے ساتھ کسی فلم کی شوٹنگ کسی جنگ سے کم نہیں، کیا ان کے ساتھ مشکلات کا سامنا نہیں ہوتا؟فرح: “یہ میرے پورے کریئر کے چند بہترین تجربات میں سے ایک تھا، ہم ایک خاندان کی طرح ہیں اور ہم نے ایک ساتھ 170 سے 180 دن ساتھ گزارے جو کہ ان ایام سے بھی زیادہ ہیں جو ہم اپنے خاندانوں کے ساتھ گزارتے ہیں”۔اب تک فرح نے اپنی چار میں سے تین فلموں میں دو بار شاہ رخ خان کو مرکزی جبکہ ‘ہیپی نیو ایئر’ میں نمایاں کردار میں پیش کیا اور وہ سب فلمیں باکس آفس پر بہت کامیاب ثابت ہوئیں تو آپ صرف ان کا ہی انتخاب کیوں کرتی ہیں، کسی اور اداکار کو لیڈ میں کیوں نہیں لیتیں؟ کیا یہ دہائیوں پرانی دوستی کی وجہ سے ہے؟کنگ خان سے ہٹ کر فرح کا کہنا ہے کہ وہ ٹام کروز کے ساتھ کام کرنا پسند کریں گی “ایس آر کے کیوں نہیں؟ میں نے دیگر اداکاروں کے ساتھ بھی کام کیا ہے اور یہ جانا ہے کہ کوئی بھی اس سے بہتر نہیں، ہماری انڈراسٹیڈنگ مثالی ہے، وہ ہمیشہ سے میرا پہلا انتخاب رہے ہیں ماسوائے اس وقت جب میں کسی بچے پر فلم بنا?ں”۔فرح ‘این ایچ وائی’ کی ہیروئین یعنی دپیکا پڈوکون کے ساتھ بھی پہلے کام کرچکی ہیں درحقیقت یہ سانولی سلونی اداکار بولی وڈ میں ‘اوم شانتی اوم’ کے ذریعے ہی متعارف ہوئی تھی، حالیہ دنوں میں ایک کے بعد ایک سپرہٹ فلمیں دینے والی دپیکا بطور اداکارہ واضح طور پر اپنا قدوقامت بڑھانے میں کامیاب رہی ہیں، تو فرح دپیکا کی پیشرفت کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں؟فرح: “اوم شانتی اوم میں وہ نا تجربہ کار تھی، میں اسے بتاتی تھی کہ کہاں دیکھنا ہے، کہاں مڑنا ہے، کس لفظ پر زور دینا ہے، کس طرح درست تاثر دینا، بالکل ایسے جیسے کسی کو اے بی سی ڈی کی تعلیم دی جا رہی ہو، اس بار مجھے اسے بس سین کے بارے میں بتانا پڑا اور لب و لہجے کا مظاہرہ کرنا پڑا، وہ اپنی صلاحیت کو بڑھانے اور ایک عظیم اداکارہ بننے کی خواہشمند ہے”۔فرح خان ٹوئیٹر پر بھی بہت سرگرم ہیں اور اس سائٹ پر ان کے فالورز کی تعداد 17 لاکھ کے لگ بھگ ہے، وہ اسے بہت کارآمد سمجھتی ہیں مگر اس کے بیشتر نقصانات بھی گنواتی ہیں۔فرح: “ہمارے اتنے زیادہ فالورز ہیں کہ ممکنہ طور پر کسی اخبار کی بھی اتنی اشاعت نہیں ہوسکتی، اگر ہم کوئی خبر دینا یا کسی بات کی تصدیق یا تردید کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اگلے روز کے اخبار کی ضرورت نہیں، ہم بس ٹوئیٹ کردیتے ہیں، یہ بالکل اپنا ایک منی اخبار ہونے کی طرح ہے۔ اس کے نقصانات یہ ہیں کہ وہاں آپ کے پاس لوگوں کی بات چیت پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا، میں فیس بک پر متحرک نہیں، وہاں میرے نام سے ایک بہروپیا موجود ہے، بیک وقت پیدا ہونے والے تین بچوں کے سیٹ، ایک شوہر، چلانے کے لیے ایک گھر اور بنانے کو ایک فلم، میں ٹوئیٹر کو اپنے خیالات آگے بڑھانے کے لیے قابل اطمینان ذریعہ سمجھتی ہوں”۔ہندوستان میں پاکستانی فلموں کی نمائش اور زندگی چینل پر پاکستانی ڈراموں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر فرح کا کہنا تھا۔فرح: “میں توقع کرتی ہوں کہ اس حوالے سے تبادلہ ہونا چاہئے، سینما، آرٹ اور ثقافت یقیناً شیئر کیے جانے چاہئیں، یہ چیزیں سرحدوں سے ماورا ہوتی ہیں، تو یقیناً انہیں سامنا آنا چاہئے اگر آپ مجھ سے بطور ایک ماں یا سرحد کی دونوں جانب موجود ایک خاتون کے طور پر پوچھیں تو میرے خیال میں امن جنگ سے بہتر ہوتا ہے”۔انہیں اب تک زندگی چینل پر پاکستانی ڈرامے یا پاکستانی اسٹارز سے مزئین ہندی فلمیں دیکھنے کا موقع نہیں ملا مگر ان کی ملاقات فواد خان سے ہوئی ہے۔فرح: “میری فواد سے ملاقات اس ٹی وی شو میں ہوئی تھی جس کے ججز کی ٹیم میں میرا نام بھی شامل ہے، بہت اچھا لگا اس سے مل کر، وہ بہت باوقار اور شائستہ انسان ہے، میں نے کبھی اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو کسی مرد کے لیے پاگل ہوتے نہیں دیکھا، ہر عمر کی خواتین فواد سے ملنا چاہتی ہیں، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ وہ کتنا بڑا اسٹار ہے، میں نے اسے ‘خدا کے لیے’ نامی فلم میں دیکھا تھا مگر میں نے اس کے ڈرامے نہیں دیکھے، ہندوستانیوں میں اس کے پرستاروں کی تعداد کافی زیادہ ہے”۔’ہیپی نیو ایئر’ کی کامیابی پر خوش فرح خان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی تک مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں سوچنے کا موقع نہیں ملا، وہ اپنے مخصوص دوستانہ انداز میں بتاتی ہیں “سانس لینے دو، چھٹی تو منانے دو بچوں کے ساتھ، میں اس سال کے اختتام تک آرام کروں گی اور جنوری میں اگلے پراجیکٹ پر کام شروع کروں گی”۔