امین آباد میں تاجروں نے پھر کیا ہنگامہ
لکھنؤ: بقایہ داروں کی بجلی کاٹنے کی مہم شروع ہوتے ہی لوگوںکی مخالفت شروع ہو گئی۔امین آباد میں بقایہ دار کا بجلی کنکشن جانچ کرنے پہنچے ایگزیکٹیو انجینئر کو لوگوں نے گھیر لیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ کیمپس گذشتہ کئی برسوں سے بند ہے اور وہاں بجلی کا استعمال نہیں ہوتا۔ انجینئروں کا کہنا تھا کہ وہ کیمپس دیکھنا چاہتے ہیں لیکن تاجروں کی مخالفت کے سبب انجینئر کیمپس کی جانچ نہیں کر سکے۔ انجینئر اور تاجروں کے درمیان بحث کے دوران پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ امین آباد کے رام آسرے کامپلیکس میں سنجیو گپتا کے نام سے چلنے والے ایک کنکشن پر ۵۲ء۷لاکھ روپئے بقایہ تھا۔ ایگزیکٹیو انجینئر انل کمار اپنی ٹیم کے ساتھ کنکشن کی جانچ کرنے پہنچے تو کیمپس پر تالا لگا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ کیمپس طویل عرصے سے بند ہے۔ مسٹر کمارکا کہنا تھا کہ کیمپس کی جانچ کی جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے۔ لیکن تاجر مخالفت کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں بڑی تعداد میں تاجر جمع ہو گئے اور ہنگامہ کرنے لگے۔ تاجروں کا کہنا تھا کہ لیسا انجینئر مسلسل امین آباد کے تاجروں کا استحصال کر رہے ہیں جبکہ مسٹر کمارنے کہا کہ وہ صرف کیمپس کی جانچ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تاجروں سے درخواست کی کہ سنجیو گپتا کا پتہ بتایا جائے تاکہ وہ کنکشن کے سلسلہ میں معلومات حاصل کرسکیں۔ لیکن تاجر ان کی کسی بھی بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ ہنگامہ بڑھنے پر پولیس بھی موقع پر آگئی اور کافی دیر تک خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ آخر کار مسٹر کمار ہنگامہ بڑھتے دیکھ کر موقع سے واپس چلے گئے۔ جمعرات کو بقایہ کے سبب ۵۱۷بجلی کے کنکشن کاٹے گئے۔ ان بقایہ داروں پر ۳۲ء۱کروڑ روپئے بقایہ تھے۔ مہم کے دوران ۹۷لوگوں نے بقایہ جمع کیا جس سے ۶۲لاکھ روپئے جمع ہوئے۔