٦ دسمبر یوم شہادت کے موقع پر
سیاست اور سماج کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ مسلسل مسلمانوں کو حاشیے پر ڈالنے کی کارروائی آر ایس ایس کے سوچے سمجھے منصوبوں کی دین ہے۔ مسلمان خواب غفلت میں ہیں۔ مودی سرکار کے وزیر گری راج سنگھ سے وزیر سادھوی نرنجن جیوتی تک کے ہتک آمیز بیانات کی کوئی سنوائی نہیں ہے۔ حزب اختلاف کے پاس نہ پاور ہے نہ اتحاد۔ اور نہ جوش کہ وہ مودی حکومت کے خلاف کچھ بولنے کی ہمت کرسکیں۔ کانگریس کی ناکامیاں سامنے آچکی ہیں۔ عوام کو پتہ ہے کہ نہ کانگریس گھپلے اور عیاشوں میں ڈوبی ہوتی اور نہ ہی بھاجپا کی حکومت آتی۔ اب یہ سرکار اکثریت میں ہے اور میڈیا کو اس سرکار نے اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کا میڈیا اس قدر بکائو نہیں، جتنا یہ انڈین میڈیا ہوچکا ہے۔ یہ مودی کی ہر اس خبر کو دبا دیتا ہے، جہاں مودی سرکار پر کوئی آنچ آئی ہوتی ہے۔ بنارس میں ہونے والے فرضی ووٹرس والے معاملے کو بھی میڈیا نے دبا دیا۔ امریکہ اور آسٹریلیا دورے میں مودی کے خلاف احتجاج اور نعرے لگانے والے بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے، لیکن ہندوستان میڈیا نے ان اختلافات اور ان احتجاج کو دکھانا مناسب نہیں سمجھا۔ یہ بکائو میڈیا ان دنوں صرف مسلمانوں کے خلاف آگ اگل رہا ہے۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو ۲۴ گھنٹے ان چینلس کو نہیں دیکھ سکتے۔ کیونکہ ان چینلس میں مسلمانوں کے خلاف جو آگ بھڑکائی جارہی ہے، اس اشتعال انگیزی کو برداشت کرنا عام مسلمان کی برداشت سے باہر ہے۔ داعش، طالبان، فرضی انکائونٹرس پر ۲۴۔۲۴ گھنٹے یہ چینلس جس طرح ایک قوم کے پیچھے پڑے ہیں، وہ حیران کرنے والا ہے۔
لفظوں کی حرمت ہندوستانی میڈیا نے ختم کردی ہے۔ میڈیا مودی کی زبان بول رہا ہے۔ مودی کی زبان بولنے پر کوئی تعجب نہیں ہے۔ مگر جس طرح ہندوستان کے ۱۲۵ کروڑ عوام کے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کی جارہی ہے، وہ خوفزدہ کرنے والا سچ ہے۔ جب انکائونٹرس فرضی پائے جاتے ہیں تو میڈیا اس سچ کو بتانے کے لیے سامنے نہیں آتا۔ دراصل میڈیا ہندوستان کے ۳۰ کروڑ عوام کو نفرت کے کٹہرے میں کھڑاکرنا چاہتا ہے اور آر ایس ایس کا یہی منصوبہ ہے جو اس وقت ہندوستانی میڈیا انجام دے رہا ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ زیادہ تر میڈیا ہائوس والے آر ایس ایس کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں بن چکے ہیں۔ اور ابھی تک ہندوستان سے میڈیا کے خلاف کوئی آواز نہیں گونجی ہے۔ پیس پارٹی ہندوستان کے ۳۰ کروڑ مسلمانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت وہ مودی حکومت میں ہونے والے تماشے کو غور سے دیکھیں۔ اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ ایک طرف مسلمان شکار ہیں اور دوسری طرف اردو کا سیاسی استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تعلیم کا بھگوا کرن ہورہا ہے۔ اردو کے سب سے بڑے ادارہ قومی اردو کونسل میں جب نئے وائس چیئرمین مظفر حسین نے صحافیوں کی میٹنگ بلائی تو کہا آر ایس ایس کے ترجمان ویر ساورکر اردو کے بڑے ادیب تھے۔ کوئی مظفر حسین سے پوچھے کہ بھائی یہ شوشہ کہاں سے لے کر آئے۔ اور ویر ساورکر کو اردو ادیب بنا کر دراصل آپ کس تہذیب، کس پارٹی اور کس قوم کی سیاست کرنا چاہتے ہیں—؟ کل آپ موہن بھاگوت کو اردو کا سب سے بڑا نثر نگار کہیں گے۔ غالب ومیر، پریم چند، منٹو، کرشن چندر کی خدمات سے الگ، کیا اب اردو والوں کو ویر ساورکر، ہیڈ گیوار جیسوں کو ادب کا ترجمان سمجھنا ہوگا؟ صرف یہی نہیں بلکہ اپنی پہلی ہی میٹنگ میں انہوں نے صحافیوں کو دھمکی بھی دے ڈالی کہ غلط لکھیں گے تو قانون ہے۔ یعنی آپ مظفر حسین کی تعلیمات، آر ایس ایس کے وچار اورمودی سرکار کے خلاف کچھ لکھتے ہیں تو آپ کے ہاتھ قانون سے بندھے ہیں۔ اورآپ کو حکومت کی طرف سے نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش یا کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ادب میں بھگوا کرن کے اس خوفناک قدم کو ابھی سے روکناہوگا۔ ورنہ کل بہت دیر ہوجائے گی۔
اعظم خاں کی سیاست سے کون واقف نہیں۔ پچھلے دنوں جب اعظم خاں نے تاج محل کو لے کر ایک متنازعہ بیان دیا تو وزیر گری راج سنگھ نے مسلمان اور نماز کو لے کر گندے بیان دے ڈالے۔ ان کی زبان پہلے بھی قینچی کی طرح چلتی رہی ہے۔ آج مودی سرکار کا ہر وزیر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تیاری کررہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف بیان دے کر آر ایس ایس کی آنکھوں کا تارا کون بنتا ہے۔ ٹی وی کا ہرچینلس اس کمپٹیشن میں خود کو آگے رکھنے کی تیاری کررہا ہے اور یہی تیاری مودی سرکار کے وزیر جن میں ’سادھوی نرنجن جیوتی بھی شامل ہیں‘ کررہی ہیں۔
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب انجانے میں نہیں ہورہا ہے۔ یہ سب آر ایس ایس کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے، جس کے بارے میں موہن بھاگوت نے کہاتھا کہ ۸۰۰ برس بعد ہندوئوں کی حکومت ہوئی ہے۔ یہ حکومت قائم رہے، اس کے لیے سب سے ضروری ہتھیار میڈیا تھا— اور اسی لیے سب سے پہلے میڈیا کو خریدا گیا۔ آج میڈیا کے حوالے سے مودی سرکار مسلمانوں پر چوطرفہ حملہ کررہی ہے۔ میڈیا کے ذریعہ ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آنے والے کل میں روزگار، کیریئر کے لیے مسلم نوجوان بچوں کے راستہ کو مسدود کیا جاسکے۔ ابھی حال میں ہندوستان میں کچھ ایسے اشتہارات بھی نوکری کو لے کر سامنے آئے جس میں کہاگیا کہ یہ نوکری مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ مودی حکومت کے صرف چھ مہینوں میں ہندوستانی جمہوریت کی جگہ کٹر ہندو وادنے لے لی ہے جس کا مقصد ہندوستان سے مسلمانوں کو ختم کرنا ہے۔ اس علامت پر غور کیجئے کہ گائوں گود لینے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے جب وزیر اعظم نریندر مودی کے گائوں گود لینے کی باری آئی تو انہوں نے ایک ایسے گائوں کو گود لیا، جہاں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ دراصل نریندر مودی آر ایس ایس کے ساتھ ایک ایسے ہندوستان کا خواب دیکھ رہے ہیں، جہاں ایک بھی مسلمان نہ ہو۔
۶ دسمبر بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر میں ہندوستان کے ۳۰ کروڑ مسلمانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اب خواب غفلت سے باہر نکلنے کا وقت آگیا ہے۔ مودی حکومت کو پہچانیں اور سماج وادی پارٹی کے اس چہرے کی حقیقت کو بھی جانیں، جس نے ہمیشہ سے مسلمانوں کے جذبات کا مذاق اڑایا ہے۔
بابری مسجد کو بھی شہید کرنے میں کلیان سنگھ اور آر ایس ایس سے ملایم سنگھ کی ساٹھ گانٹھ رہی ہے— اور انہوں نے آر ایس ایس کے ہی ایجنڈے کو لاگو کیا ہے۔ بابری مسجد شہید ہونے کے بعد جب اتر پردیش میں سپا کی سرکار بنی اور ملایم سنگھ وزیر اعلی بنے تو اس ساٹھ گانٹھ کے نذرانے میں کلیان کے بیٹے راجبیر سنگھ کو اپنی سرکار میں ہیلتھ اور پریوار کلیان منتری بنایا—ساکشی مہاراج جس نے دعویٰ کیا تھا کہ بابری مسجد کے گنبد پر پہلا پھاوڑا اس نے چلایا، اسے اور وشو ہندو پریشد کے صدر وشنو ہری ڈالمیا کے بیٹے سنجے ڈالمیا کو مسلمانوں کے ووٹوں سے فتحیاب کرکے راجیہ سبھا میں بھیجا— کلیان سنگھ، آر ایس ایس اور ایسے ہی فرقہ پرست طاقتوں سے اندر خانے یہ سمجھوتہ ملایم سنگھ یادو کے اصلی فرقہ پرست چہرے کو اجاگر کرتا ہے— سال 2004میں وزیر اعلی نواس میں ملایم سنگھ کا آر ایس ایس کے سربراہ رجو بھیا سے ملنا، 2005میں اسرائیل کے امبیسڈر ڈیوڈ ڈینیل سے وزیر اعلی نواس میں ملایم سنگھ یادو کی ملاقات اور سمجھوتہ، آر ایس ایس اور اسرائیل کے ساتھ سماجوادی پارٹی کی سانٹھ گانٹھ کامکمل ثبوت ہے۔
ایک طرف بھاجپائی اور آر ایس ایس کے منصوبے ہیں اور دوسری طرف ملائم سنگھ جیسے لوگ جو دراصل اسی ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ بابری مسجد شہادت کو ۲۲ برس گزر چکے ہیں۔ موجودہ سیاست کے تماشے کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا ضروری ہوگیا ہے کہ مسلمان کیا کریں اور کہاں جائیں؟
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
تکیے اجڑ گئے۔ کانگریس گمنامی میں چلی گئی۔ اور کانگریس نے بھی مسلمانوں کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ اب خزاں برس رہی ہے۔ اس پرآشوب موسم میں مسلمان مودی کی سیاست کا شکار۔ سوال ہے مسلمان کریں تو کیا کریں۔ کہاں جائیں۔ اور اس سے بڑا سوال ہے، مسلمانوں کی آواز کون سنے گا