سین ڈیاگو: برصغیر پاک و ہند کے اکثر علاقوں اور کئی یورپی ممالک میں بھی حقہ پینے کا رواج عام ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ شاید سگریٹ سے زیادہ خطرناک نہیں لیکن ایک نئی تحقیق نے خبردار کیا ہے کہ حقہ پینے والے افراد میں خون کا سرطان تیزی سے پھیلنے کا امکان سگریٹ پینے والوں سے زیادہ ہوتا ہے۔امریکی یونیورسٹی سین ڈیاگو میں ہونے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ حقہ پینے کے دوران جب سانس اندر کھینچا جاتا ہے تو وہ اپنے ساتھ بینزین کیمیکل بھی جسم میں لے جاتا ہے جو خون میں موجود سفید ذرات کو بڑھا دیتا ہے اور خون کی خطرناک بیماری ’لیوکیمیا‘ کا باعث بنتا ہے۔ تحقیق کے دوران حقہ پینے والے 105 افراد کا حقہ پینے سے قبل اور بعد میں پیشاب کا نمونہ لیاگیا جب کہ ساتھ ہی ان 103 افراد کا بھی ٹیسٹ لیاگیا جو حقہ تو نہیں پیتے تھے لیکن وہ ایسی جگہ موجود تھے جہاں حقہ پیا جارہا تھا، ٹیسٹ کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ حقہ پینے والے افراد جب کش لیتے ہیں تو ان کے جسم میں بینزین کے ٹوٹنے سے وجود میںآنے والے خطرناک مرکب ’ایس فینائل مرکیپٹورک ایسڈ‘ (ایس پی ایم اے) کی مقدار چار گنا زیادہ پائی گئی جب کہ جو لوگ حقہ کا استعمال تو نہیں کرتے لیکن وہ ایسی محفل میں بیٹھتے ہیں جہاں حقہ پیا جاتا ہے کے ٹیسٹ کا جائزہ لیا گیا تو ان کے جسم میں اس مرکب کی مقدر 2.6 گنا تک پائی گئی۔تحقیق کے سربراہ کا کہنا تھا کہ چوک اور چوراہوں اور گھروں پر حقہ پینے والے افراد پرکی جانے والی یہ پہلی تحقیق ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ حقہ پینے والے افراد کے خون میں بینزین کی مقدارحقہ نہ پینے والے افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور اس میں استعمال کئے جانے والا تمباکو دیگر تمباکو سے زیادہ خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حقہ نہیں پیتے لیکن وہ صرف ایسی جگہوں پر موجود ہوتے ہیں جہاں حقہ پیا جا رہا ہو ان کے جسموں میں بھی ایس پی ایم اے کی مقدار کا لیول خطرناک حد تک موجود ہوتا ہے اور جو لوگ گھروں پر حقہ پیتے ہیں ان میں یہ مرکب زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے،خطرناک بات یہ ہے کہ بینزین نہ صرف حقے کے تمباکو میں بلکہ اس کو جلانے کے لیے استعمال ہونے والے کارکول میں اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے۔تحقیق کاروں نے خبردارکیا ہے کہ جو لوگ صرف محفل جمانے کے لیے حقہ پینے والوں کا ساتھ دیتے ہیں یہ زہر دھویں کی صورت ان کے جسم میں داخل ہوکرلیوکیمیا کی بیماری کا باعث بن جاتا ہے۔