بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق اس سال نومبر میں دنیا بھر میں جہادی گروہوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
القاعدہ، اس کی مختلف شاخوں اور اس کے نظریات کے حامی گروہوں کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں کے اس جائزے کے مطابق جہادی گروہ دنیا کے 14 ممالک میں سرگرم ہیں۔ اس ماہ میں سب سے زیادہ افراد کو عراق، نائجیریا، افغانستان اور شام میں نشانہ بنایا گیا۔
ذیل میں جیمز کوماراسامی نے اس تحقیق میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے۔
اس تحقیق کا مقصد دنیا بھر میں ایک ماہ میں ہونے جہادی گروہوں کے ہاتھوں کیے جانے والے جانی نقصان کو اعداد و شمار کی شکل میں دیکھنا تھا۔ مستند ترین ذرائع استعمال کرتے ہوئے یہ تحقیق بی بی سی اور لندن کے کنگز کالج سے منسلک شدت پسندی کے مطالعے کے مرکز، انٹرنیشنل سینٹر فار دی سٹڈی آف ریڈیکلائزیشن‘ کے اشتراک سے مکمل کی گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق نومبر کے مہینے میں دنیا کے 14 ممالک میں کل 5,042 افراد القاعدہ اور اس کے نظریاتی گروہوں کی کارروائیوں میں ہلاک ہوئے، جن میں سے سب سے زیادہ اموات عراق اور شام میں ہوئیں، جہاں دولتِ اسلامیہ نے دو ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔
دولتِ اسلامیہ کے بعد سب سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنے والا دوسرا بڑا جہادی گروہ بوکوحرام رہا جس نے چند بڑے حملوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتارا۔
نومبر میں ہلاک ہونے والے 5,042 افراد میں تقریباً ایک ہزار جہادی جنگجو بھی شامل ہیں جو سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں یا اپنے حملوں کے دوران مارے گئے۔ جہادیوں کے علاوہ مارے جانے والے لوگوں میں نصف سے زیادہ تعداد عام شہریوں کی تھی۔ عام شہریوں کے بعد جہادیوں کا نشانہ بننے والوں میں سب سے زیادہ تعداد فوجیوں کی رہی۔
اس تحقیق کے اصول و ضوابط کیا تھے؟
اپنی کارروائیوں میں جہادیوں نے مختلف نوعیت کے حملے کیے جن میں فائرنگ، گھات لگا کر حملہ کرنا، دستی بموں سے حملے اور خود کش حملے شامل تھے۔ اس کے علاوہ القاعدہ اور اس کے نظریاتی حامیوں نے 50 افراد کو سر قلم کر کے ہلاک کیا۔
اس تحقیق کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ ایک ایسی جہادی تحریک کی ایک جھلک ہے جو خاصی پیچیدہ ہے اور اس کی شکل مسلسل تبدیل ہو رہی ہے۔ اس جہادی تحریک کے ہاتھوں نومبر کے 30 دنوں کے دوران اوسطاً ہرگھنٹے میں سات افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
جہادی گروہوں کے کس گروہ کے ہاتھوں کس ملک میں کتنے افراد مارے گئے، اور انھیں کس طرح مارا گیا، اس کی تفصیل جاننے کے لیے ذیل میں دیے گئے گراف پر کلک کیجیے۔