ممبئی ۔شہنشاہ جذبات دلیپ کمار جمعرات کو 92 سال کے ہوگئے اور انہیں بولی وڈ کا سب سے بہترین اداکار بھی مانا جاتا ہے۔اپنے ساٹھ سالہ اداکاری کے کریئر کے دوران انہوں نے ساٹھ سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں مغل اعظم، انداز، کرانتی اور دیگر لاتعداد فلموں نے بے مثال کامیابی حاصل کی۔یوسف خان عرف دلیپ کمار پشاور کے علاقے قصہ خوانی میں 11 دسمبر 1912 کو پیدا ہوئے، ان کے والد لالہ غلام سرور پھلوں کے ایک تاجر تھے جن کے پشاور اور ناسک کے قریب پھلوں کے باغات تھے۔دلیپ کمار نے ناسک کے قریب برنس اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ان کا خاندان 1930 کی دہائی میں بمبئی منتقل ہوگیا تاہم 1940 کو گھر چھوڑ کر پونا چلے گئے اور وہاں ایک کینٹین کھول لی اور خشک میوہ جات سپلائی کرنے لگے۔سال 1943 میں دلیپ کمار کی ملاقات بمبئی ٹاکیز کے مالکان دیویکا رانی اور ان کے شوہر ہمانشو رانی سے ہوئی جنھوں نے انہیں اپنی فلم کے مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کرلیا یہ فلم 1944 میں جوار بھاٹا کے نام سے شروع ہوئی جو ان کا بولی وڈ میں ڈیبیو ثابت ہوا اسی زمانے میں ہندی زبان کے مصنف بھگوتی چرن ورما نے یوسف خان کو دلیپ کمار کا اسکرین نام دیا۔اگرچہ جوار بھاٹا زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی تاہم 1947 میں ان کی نورجہاں کے ساتھ فلم جگنو کریئر کی پہلی بڑی ہٹ ثابت ہوئی جس کے ساتھ ہی شہید (1948) بھی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیاب رہی۔سال 1949 میں راج کپور اور نرگس کے ساتھ پیار کی تکون پر مشتمل کلاسیک فلم انداز نے دلیپ
کمار کو سپر اسٹار بنا دیا مگر انہیں “ٹریجڈی کنگ” کا خطاب 1950 کی دہائی میں یکے بعد دیگرے آنے والی فلمیں جوگن، دیدار، داغ، دیوداس، یہودی اور مدھومتی کی بے مثال کامیابی کی صورت میں ملا۔سال 1952 میں دلیپ کمار نے اپنے “ٹریجڈی کنگ” کے تصور کو ختم کرنے کے لیے ہلکے پھلکے کردار ادا کیے جیسے آن جو پہلی ٹیکنی کلر ہندی فلم تھی، آزاد، نیا دور اور کوہِ نور سمیت دیگر فلموں میں انہوں نے خود کو المیہ اداکاری کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی اداکاری کے میدان میں برتر تسلیم کرالیا۔سال 1960 میں دلیپ کمار کے آصف کی انتہائی بڑے بجٹ کی تاریخی فلم مغل اعظم میں شہزادہ سلیم کے کردار میں نظر آئے جو 2008 تک بولی وڈ میں سب سے زیادہ بزنس کرنے والی دوسری بڑی فلم تھی۔سال 1961 میں دلیپ کمار نے اپنے سرمائے سے فلم گنگا جمنا بنائی جس میں مرکزی کردار انہوں نے خود ادا کیا جبکہ ان کے بھائی ناصر خان بھی ان کے ساتھ تھے۔ان کی اگلی فلم لیڈر (1964) باکس آفس پر کمال نہیں دکھا سکی تاہم اس کے بعد وہ ڈبل رول والی فلم رام اور شیام میں نظر آئے جو کہ سپرہٹ ثابت ہوئی۔دلیپ کمار کا رومانوی تعلق اس دور کی خوبصورت ترین اداکارہ مدھو بالا سے بھی رہا، ان دونوں کی ملاقات فلم ترانہ کے سیٹس پر ہوئی اور بعد میں انہوں نے سنگدل، امر اور مغل اعظم میں اکھٹے کام کیا۔یہ مانا جاتا ہے کہ ان دونوں کا تعلق نو سال تک برقرار رہا اور ان کی منگنی بھی ہوگئی تاہم مدھو بالا کے والد عطاء اللہ خان اس جوڑے کی شادی کے خلاف تھے اور اسی وجہ سے دونوں کے راستے الگ ہوگئے۔سال 1966 میں دلیپ کمار نے بائیس سالہ سائرہ بانو سے شادی کی جبکہ 1980 میں عاصمہ نامی خاتون سے بھی ان کی شادی کی خبریں سامنے آئیں تاہم اس حوالے سے یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ستر کی دہائی میں دلیپ کمار کے کریئر کو اس وقت جھٹکا لگا جب ان کی فلموں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا خاص طور پر ٹرپل رول والی فلم بیراگ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔سال 1970 میں وہ اپنی بیوی سائرہ بانو کے ساتھ گوپی میں بھی نظر آئے مگر وہ بھی فلاپ ثابت ہوئی اور فلموں کی ناکامی کے بعد دلیپ کمار نے 1976 سے 1981 تک فلموں سے دوری اختیار کیے رکھی۔پانچ سال کے وقفے کے بعد دلیپ کمار بولی وڈ میں بڑی کاسٹ کی فلم کرانتی کے ساتھ واپس آئے جو کہ اس سال کی سب سے بڑی ہٹ قرار پائی۔اس کے بعد کے برسوں میں دلیپ کمار نے ڈائریکٹر سبھاش گھئی کے ساتھ ودھاتا (1982) اور کرما (1986) جیسی سپرہٹ فلموں میں کام کیا۔دلیپ کمار نے امیتابھ بچن کے باپ کا کردار رمیش سپی کی فم شکتی میں ادا کیا جس پر انہیں بہترین اداکاری پر ایک اور فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔سال 1991 میں دلیپ کمار نے سبھاش گھئی کی ہٹ فلم سوداگر میں دادا ٹھاکر کا کردار ادا کیا اس فلم میں ان کے ساتھ معروف اداکار راج کمار بھی تھے یہ ان کی سبھاش گھئی کے ساتھ تیسری اور آخری فلم تھی۔سال 1998 میں وہ ایک بار ڈبل رول کے ساتھ فلم قلعہ میں نظر آئے جو کہ ان کی اب تک کی آخری فلم بھی ثابت ہوئی۔سال 2004 اور 2008 میں ان کی فلمیں مغل اعظم اور نیا دور بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین کرکے ریلیز کی گئیں۔بہت کم افراد کو معلوم ہے کہ دلیپ کمار سب سے زیادہ تعداد میں ایوارڈز جیتنے والے انڈین اداکار کا گینز ورلڈ ریکارڈ کا اعزاز بھی اپنے نام کرچکے ہیں۔گزشتہ دنوں طبعیت علیل ہونے کے باعث کافی عرصہ ہسپتال میں گزار چکے ہیں تاہم اب ان کی حالت میں بہتری بتائی جا رہی ہے۔1922 میںگیارہ دسمبر کو روز پشاور کے قصہ خوانی بازار میں پھلوں کے تاجر لالہ غلام سرور کے ہاں پیدا ہونے والے یوسف خان نے اپنا تعلیمی سفر آبائی شہر میں ہی مکمل کیا اور اپنے والد کے ساتھ کاروبار سے منسلک ہوگئے، 1935 میں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ممبئی منتقل ہوگئے, 1943 میں وہ بھارتی فلم ساز ادارے بمبے ٹاکیز کے ساتھ منسلک ہوئے اور 1944 میں اسی بینر تلے بننے والی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرکے اب تک آنے والی ہر نسل کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ بالی ووڈ کے میگا اسٹار امیتابھ بچن سے لے کر شاہ رخ خان تک ہر اداکار نے انہیں اپنا استاد مانا اور ان کے انداز کی نقل کی۔6 عشروں پر محیط فلمی سفر کے دوران دلیپ کمار نے مجموعی طور پر صرف 63 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن انہوں نے ہر کردار میں اپنے آپ کو مکمل طور پر ضم کرلیا۔ اپنے کردار میں حقیقت کا رنگ لانے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے فلم ’ٓوہ نور‘ میں ایک نغمے میں موسیقار کا کردار نبھانے کے لئے کئی برسوں تک استاد عبدالحلیم جعفرخاں سے ستار بجانا سیکھا، اسی طرح نیا دور‘ بننے کے دوران بھی انoوں نے تانگا چلانے کی باقاعدہ تربیت لی, فنی خدمات کی بدولت جہاں بھارت میں انہیں کئی اعزاز و اکرام سے نوازا گیا وہیں پاکستان نے بھی ملک کے سب سے بڑے سول اعزاز نشان پاکستان سے سرفراز کیا۔یوں تو دلیپ نے کئی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا لیکن ان کی جوڑی مدھوبالا کے ساتھ سب سے زیادہ مقبول رہی، حقیقی زندگی میں بھی دونوں اتنے قریب تھے کہ نوبت شادی تک جاپہنچی تھی لیکن تقدیر کو یہ منظور نہ تھا اور برصغیر کے شہنشاہ جذبات نے خود سے 22 برس چھوٹی سائرہ بانو کے ساتھ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئیاور دونوں کی جوڑی آج بھی قائم و دائم ہے۔ اب طبیعت کی ناسازی کے باعث ان کی سرگرمیاں انتہائی محدود ہوگئی ہیں لیکن برصغیر کے کروڑوں عوام کے لئے ان کی فلمیں روز اول ہی کی طرح مقبول ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭