بچوں کے جنگ میں استعمال کیے جانے کے خلاف بین الاقوامی قوانین ضرور ہیں لیکن ان کی پاسداری کم ہوتی ہے
جاڑے کے ایک سرد دن پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دس سالہ نقیب اللہ کے چچا کے گھر رشتے دار، پڑوسی، خیرخواہ جوق در جوق چلے آ رہے ہیں۔
وہ اسے زندہ دیکھ کر خوش ہیں کیونکہ نقیب اللہ پراسرار طور پر بلوچستان میں اپنے مدرسے سے ایک دن غائب ہوگیا تھا۔
پانچ مہینوں تک خاموشی تھی کہ اچانک ایک پڑوسی نے افغان ٹی وی پر نقیب اللہ کو پہچان لیا جب وہ جنوبی افغان شہر قندھار سے پولیس کے گرفتار کردہ
جنگجوؤں کی ’قطار‘ میں کھڑا تھا۔
پڑوسی عبدالاحد نے بتایا: ’میں دوڑا ہوا گیا اور نقیب اللہ کے چچا کو بتایا کہ ہم نے اسے ابھی ٹی وی پر دیکھا ہے کہ اسے قندھار میں خود کش حملے کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔‘
نقیب اللہ کی کہانی اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ طالبان اور دوسرے جنگجو گروہ کس طرح بچوں کو خود کش بمبار بناتے ہیں۔
افغان روایتی طور پر جنگجو رہے ہیں لیکن خود کش حملے ان کا حصہ کبھی نہیں رہے۔ یہ عراقی جنگ کے تھیئٹر سے پیدا ہونے والی تباہ کن حقیقت ہے جو سنہ 2005 کے بعد یہاں کے معمول میں شامل ہے۔
بچوں کے حقوق پر سنہ 1989 کے کنوینشن کی دفعہ ایک کے مطابق 18 سال سے کم عمر کا ہر شخص بچہ ہے
اور افغان جنگ میں جہاں حکومت اور بین الاقوامی افواج سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد ان سے بر سر پیکار ہیں ان میں حد سے زیادہ بچے متاثر ہوئے ہیں۔
بہت پہلے سے باغیوں کی سرگرمیوں میں بچوں کا استعمال آئی ای ڈیز کو اڑانے، نگرانی کرنے، افغان اور نیٹو فوجیوں اور حکومت کے اہلکاروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
نوجوان بچوں کو زخمی طالبان کو گھسیٹ کر لے جاتے، گرے ہوئے اسلحے چنتے یہاں تک کہ لڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے 10 سال سے زیادہ عمر کے تقریبا ڈھائی سو بچوں کو گرفتار کیا ہے۔
اس میں پریشان کن موڑ خود کش بمبار بچوں کی روز افزوں تعداد ہے۔ بچوں کو صرف ان کے بچہ ہونے کی وجہ سے بھرتی کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے علاوہ افغانستان میں بھی بچوں کی تربیت کے شواہد ملے ہیں
افغان سکیورٹی فورسز کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ہے اس لیے بالغ خود کش حملہ آوروں کے لیے اپنے اہداف کو نشانہ بنانا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔
بچوں کو زیادہ ’بھرتی کے لائق اور آسانی سے حملے کے لیے تیار کیے جانے والے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس پر سکیورٹی فورسز کو جلدی شبہ بھی نہ ہو۔
دوسرے ہزاروں بچوں کی طرح نقیب اللہ کو اس کے چچا نے اس کے والد کی موت کے بعد مدرسے میں داخل کر دیا تھا۔ پاکستان اور افغانستان میں غریب کنبے اپنے بچوں کو اس طرح کے مدارس میں تعلیم اور رہائش کے لیے بھیجتے ہیں۔
طالبان کے تربیت دینے والوں کے لیے ایسے مدرسے اہم بھرتی مراکز ہیں۔ حراست میں لیے جانے والے بچوں نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ انھیں گلیوں اور غریب علاقوں سے اٹھایا گیا ہے۔
بہت سے معاملے میں والدین اور سرپرستوں کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال سے بالکل لاعلم ہیں۔
لڑکیوں کی بھرتی کے شاذ و نادر واقعات ہی سامنے آتے ہیں۔ایک 10 سالہ لڑکی سپوزمائی اس وقت عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی جب اسے چھ جنوری سنہ 2014 مین جنوبی ہلمند صوبے میں حراست میں لیا گیا۔
اس نے بتایا کہ اس کے بھائی نے اس سے کہا تھا کہ ایک پولیس چیک پوسٹ کے سامنے وہ خود کو دھماکے سے اڑا دے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ جو بچے خود کش بمبار بننے سے پہلے پکڑے گئے ہیں ان میں سے 90 فی صد سے زیادہ بچوں کی ذہن سازی، تربیت اور ان پر زورآزمائی پاکستان میں کی گئی ہے
سنہ 2011 میں ایک آٹھ سالہ لڑکی ارزگان صوبے میں اس وقت ہلاک ہو گئی تھی جب وہ دھماکہ خیز مادے سے بھرا ایک کپڑے کا بیگ ایک پولیس چیک پوائنٹ کی جانب لے جا رہی تھی کہ اسے دور سے ہی ریموٹ سے اڑا دیا گیا تھا۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ جو بچے خود کش بمبار بننے سے پہلے پکڑے گئے ہیں ’ان میں سے 90 فی صد سے زیادہ بچوں کی ذہن سازی، تربیت اور ان پر زورآزمائی پاکستان میں کی گئی ہے۔‘
لیکن طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی ان کی تربیت کے شواہد ملے ہیں۔
گذشتہ سال شمالی افغانستان کے شہر قندوز میں ایک باپ نے اپنے ایک نوجوان بیٹے کو پولیس کے حوالے کیا۔
50 سالہ اس شخص نے کہا: ’میں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ مجھے یہ خوف تھا کہ جب وہ چند ماہ کے لیے غائب ہوا تھا تو کہیں وہ شدت پسندی کی جانب مائل تو نہیں کر دیا گیا ہے۔‘
ان کا کنبہ ایک سال قبل پاکستان سے واپس ہوا ہے۔
غرب و افلاس کے ماروں کو اس جانب بہ آسانی لبھایا جا سکتا ہے
بعض نے پاکستان میں کامیابی کے ساتھ خودکش حملہ کیا ہے۔ سنہ 2011 میں مردان شہر میں ایک بچے نے سکول یونیفارم میں خود کو اڑا لیا تھا جس میں تقریبا 30 افراد مارے گئے تھے۔
نقیب اللہ کا کہنا ہے کہ اس کے بڑوں نے کہا تھا کہ وہ جنت میں جائے گا اور اس کی تمام پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کو بوریت اور غربت و افلاس کی محنت و مشقت کی متبادل راہ دکھائی جاتی ہے اور مبلغین اس کا وعدہ کرتے ہیں۔
حکام کہتے ہیں: ’وہ انھیں جنت کے بارے میں بتاتے ہیں جہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہوں گی اور یہ انھیں خود کش بمبار بن کر اپنی جان دینے کے عوض انھیں ملیں گی۔‘
ہرچند کہ بچوں سے حاصل شدہ اعتراف بعض اوقات غیر معتبر ہوتے ہیں تاہم انھیں کیسے تیار کیا گیا اس کی وہ خوفناک روداد سناتے ہیں۔
انھیں کہا گيا کہ ’حملہ آور بیرونی افواج‘ افغانستان کی لڑکیوں اور خواتین کا ریپ کرتے ہیں اور قرآن کو امریکی جلاتے ہیں۔
بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ ’کافروں‘ کے اتحاد کے خلاف لڑنا ان کا مذہبی فریضہ ہے اور یہ کہ وہ اس کے والدین اس کے بدلے جنت میں جائيں گے۔
انھیں کہا جاتا ہے کہ جس افغان کو وہ مارنے جا رہے ہیں ’انھیں مر جانا چاہیے‘ کیونکہ وہ ’سچے مسلمان نہیں ہیں‘ یا پھر وہ ’امریکہ کا تعاون کرنے والے ہیں‘۔
تاہم بچوں کو شاذو نادر ہی یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کا مخصوص ہدف کون ہے اور انھیں کیوں مرجانا چاہیے۔
مدرسوں کو ایسی بھرتیوں کے لیے موزوں جگہ تصور کیا جاتا ہے
بعض معاملوں میں ان سے صریح جھوٹ کہا جاتا ہے۔ بعض کو قرآن کی آیتوں والی تعویذ دی گئی اور کہا گیا کہ اس کی مدد سے وہ بچ جائیں گے۔ بعض بچوں کو گلے میں لٹکانے کے لیے چابی دی گئی کہ اس سے جنت کا دروازہ کھلے گا۔
بچوں کے جنگ میں استعمال کیے جانے کے خلاف بین الاقوامی قوانین ضرور ہیں۔ بچوں کے حقوق پر سنہ 1989 کے کنوینشن کی دفعہ ایک کے مطابق 18 سال سے کم عمر کا ہر شخص بچہ ہے۔ افغانستان کے قانون میں بھی بچون کا مسلح افواج یا پولیس میں بھرتی کیا جانا ممنوع ہے۔
طالبان کے ترجمان عام طور پر بچوں کے استعمال، بطور خاص لڑکیوں کے استعال سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن سنہ 2001 کے اواخر میں ان کے جاری کردہ تینوں لائحوں میں بغیر داڑھی والے نوجوانوں کے شامل کیے جانے کی ممانعت ہے۔
لیکن طالبان کے ایک اہلکار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کوئی مقامی کمانڈر جو تنہا کام کررہا ہے اس نے ایسا کیا ہو۔ بہت سے لوگوں کے لیے درست عمر معنی نہیں رکھتی۔ جوکوئی بھی بلوغ کو پہنچ گیا ہے اور ذہنی طور پر درست ہے وہ لڑنے کے قابل ہے۔
افغان سکیورٹی حکام کے مطابق ابھی بھی 30 ایسے بچے حراست میں ہیں جن پر باغیوں سے تعلق رکھنے کا الزام ہے۔
بچیوں کا خود کش بمبار بنایا جانا شاذونادر کے زمرے میں آتا ہے
وسائل کی کمی کے نتیجے میں ان کی بحالی پیچیدہ معاملہ ہے۔ ایسے ہی مرکز کے ایک اندرونی شخص نے بتایا کہ بعض بچے بحالی کے دور سے اچھی طرح گزرتے ہیں جبکہ بعض اس بات پر افسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنے مشن میں ناکام کیوں ہو گئے۔
نقیب اللہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا: ’انھوں نے مجھے ایک دوسرے مدرسے میں چند ماہ رکھا۔ پھر دوسرے لوگ آئے اور جھے قندھار لے گئے۔ ایک دن وہ مجھے ایک کار میں لے گئے۔ مجھے ایک بھاری صدری پہنے کو دی اور فوجیوں کی جانب اشارہ کیا۔‘
اس سے قبل کہ وہ اپنی صدری کو دھماکے سے اڑاتا لیکن پولیس نے اس روک لیا اور اس کو چلانے والے جو دور سے اسے دیکھ رہے تھے وہ کار میں فرار ہو گئے۔
اس کی رہائی کے لیے اس چچا نے مقامی قبائلی رہنماؤں، مذہبی علما اور افغان حکام سے رابطہ کیا اور گھر واپس آ کر وہ اپنے تمام خیر خواہوں سے کہتا ہے کہ وہ گھر واپسی پر کتنا خوش ہے۔