لکھنؤ(بھاشا) صنعتی تنظیم ایسوچیم کے ایک سروے کے مطابق ملک میں گنے کے کل رقبے میں سب سے زیادہ ۴۵ فیصد حصہ داری رکھنے کے باوجود اتر پردیش فی ہیکٹیئر گنا پیداواریت کے معاملے میں سب سے پیچھے ہے۔ ایسوچیم نے حکومت کو شکر کی پیداوار میں اتار چڑھاؤ کو کم کرنے کیلئے مستقل قیمت ماڈل کو چھوڑ کر محصولات شراکت داری نظام کو اپنا نے کی صلاح دی ہے۔ انڈین شوگر انڈسٹری: دی وے فارورڈ کے موضوع والی مطالعتی رپورٹ کے مطابق اتر پردیش ملک کی گنے کی کھیتی کے کل رقبے میں تقریباً۴۵ فیصد حصہ داری رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی کل شکر پیداوار میں بھی اس کا تقریباً ۴۰ فیصد حصہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود فی ہیکٹیئر صرف ۵۹ میٹرک ٹن گنا ہی پیداکرپاتاہے۔ جو ملک کی
کسی بھی دیگر ریاست کے مقابلے سب سے کم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فی ہیکٹیئر سب سے زیادہ گنے کی پیداوار کے معاملے میں تملناڈو پہلے مقام پر ہے جہاں پر فی ہیکٹیئر ۱۰۰ ٹن گنا پیدا ہوتاہے۔ یہ جنوبی ریاست گنے کی کاشت کے رقبے میں بارہ فیصد حصہ داری کے ساتھ تیسرے مقام پر ہے۔ جب کہ کل شکر پیداوار حصہ داری کے معاملے یہ چوتھے مقام پر ہے۔ شکر کے پرتے (شوگر ریکوری) کے معاملے بھی اترپردیش دیگر اہم شکر پیداواری ریاستوں سے پیچھے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ رقبہ اور سب سے زیادہ گنے کی پیداوار کر نے کے باوجود اتر پردیش سب سے بڑی شکر پیداکرنے والی ریاست نہیں ہے۔ شوگر ریکوری کے معاملے میں مہاراشٹر ۲۵ء۱۱ فیصد کے ساتھ سر فہرست ہے۔ اس کے بعد کرناٹک اور گجرات بالترتیب ۴ء۱۰فیصد اور ۶ء۱۰ فیصد کے ساتھ فہرست میں شامل ہیں۔ ایسوچیم کے جنرل سکریٹری ڈی ایس راوت کے مطابق اتر پردیش میں شکر کے پرتے میں کمی آنے کا ایک سبب شکر کی قیمتیں زیادہ ہونا بھی ہے۔ اس ریاست میں شکر کی قیمتیں ملک میں سب سے زیادہ ہیں۔ریاستی حکومت کے ذریعہ گنے کی سہارا قیمت بلند سطح پر طے کئے جانا اس کی خاص وجہ ہے۔ راوت نے کہا کہ کسانوں کے بقایا گنا قیمت کی ادائیگی نہ ہونے، شکر ملوں اور حکومت کے درمیان ٹکراؤ کے سبب پیرائی کے کام میں تاخیر ہونے سے بھی ریاست میں شکر کی پیداوار پر اثر پڑا ہے۔ اس طرح بڑھی ہوئی گنے کی سہارا قیمت اور کم شوگر ریکوری کے سبب پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ملو کے پاس شکر کی قیمت بڑھانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسو چیم کے مطالعے میں حکومت کو مستقل قیمت ماڈل کو ترک کرتے ہوئے محصولات شراکت داری ماڈل اپنانے کی صلاح دی ہے۔ تاکہ ملک میں شکر کی پیداوار میں اتارچڑھاؤ کو کم سے کم کیا جاسکے۔ مطالعے کے مطابق ہندوستان میں شکر کی کھپت میں سال در سال دو فیصد کے حساب سے اضافہ ہور ہاہے اور اسی رفتار سے ۲۰۔۲۰۱۹ تک اس کے موجودہ ۲۶ہزار ٹن سے بڑھ کر ۲۹ہزار ۳۵۳ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔