یہ اسکول پر حملے کے بعد خیبر ایجنسی میں جنگی طیاروں کی دوسری بڑی کارروائی ہے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں فوج کے زیرِ انتظام چلائے جانے والے سکول پر طالبان کے حملے میں 140 سے زیادہ افراد کی ہلاکت پر پاکستان بھر میں سوگ منایا جا رہا ہے اور پاکستانی فوج نے اس حملے کے ردعمل میں خیبر ایجنسی میں مزید 20 فضائی حملوں میں 57 شدت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
آرمی پبلک سکول پر منگل کو ہونے والے حملے میں 132 بچے اور پرنسپل سمیت 9
اساتذہ مارے گئے تھے۔
اس افسوسناک واقعے پر وزیرِ اعظم پاکستان نے تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کیا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس واقعے کے ذمہ داران سے سختی سے نمٹا جائے گا اور شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں میں کسی بھی سطح پراچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔
اسی سلسلے میں پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بدھ کی رات ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن کا دوبارہ جائزہ لیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جائزے کے بعد خیبر ایجنسی کے علاقے وادی تیراہ میں کیے جانے والے 20 فضائی حملوں میں جن میں ’ڈائنیمک سٹرائیکس‘ بھی شامل تھیں، 57 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
یہ سکول پر حملے کے بعد خیبر ایجنسی میں جنگی طیاروں کی دوسری بڑی کارروائی ہے۔
اس سے قبل حملے کے دن پشاور میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بتایا تھا کہ قابلِ عمل خفیہ اطلاعات پر کئی کارروائیاں کی گئی ہیں جن میں خیبر ایجنسی میں دس فضائی حملے بھی شامل ہیں۔
پشاور کے علاقے گلبہار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دو روز میں 12 سے زیادہ افراد کے جنازے اٹھائے گئے
تاہم ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا۔
خیبر پختونخوا کی پولیس کے سربراہ آئی جی ناصر درانی نے بدھ کو جائے وقوع کے دورے کے بعد میڈیا کو بتایا کہ یہ تمام علاقہ’ کرائم سین ‘ ہے اور وہاں سے سائنسی بنیادوں پر شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حملے کی کڑیاں سرحد پار سے مل رہی ہیں لیکن ’شہر میں دہشت گردوں کا اگر کوئی بھی ساتھی بچا ہے تو اس کا بھی پیچھا کیا جائے گا۔‘
نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کے مطابق آرمی سکول پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر بھی پشاور میں قائم کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔
پشاور میں پولیس کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ حملے کی تحقیقات کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی پاک افغان سرحدی علاقے میں کی گئی تھی اور اس میں قبائلی علاقہ جات میں سرگرم مرکزی شدت پسند گروپ شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق حملے کی منصوبہ بندی میں تحریک طالبان کے 16 رہنما شریک ہوئے جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ، نائب امیر شیخ خالد حقانی، اورکزئی ایجنسی کے طالبان کے سربراہ حافظ سعید، حافظ دولت اور قاری سیف اللہ بھی شامل تھے۔
اس کے علاوہ منصوبہ بندی میں لشکر اسلام کے سربراہ منگل باغ اور شمالی وزیرستان میں اپنے دھڑے کے طالبان سربراہ حافظ گل بہادر بھی شامل رہے۔
ہلاک شدگان کے لیے دعائیہ تقریبات کا سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے
پولیس ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق اس حملے میں حصہ لینے والے سات خودکش حملہ آوروں کو خیبر ایجنسی کے علاقے باڑہ میں ایک خفیہ مقام پر تربیت دی گئی تھی۔
ادھر جمعرات کو سوگ کے دوسرے دن بھی پشاور شہر میں ہڑتال کا سماں ہے اور شہر سنسان ہے۔
نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق پشاور میں تعلیمی ادارے اور کاروبار جزوی طور پر بند ہے اور سڑکوں پر ٹریفک بھی کم ہے۔
نامہ نگار کے مطابق آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں اور دیگر تمام افراد کی تدفین بدھ کو کر دی گئی جبکہ کئی مقامات پر غائبانہ نمازِ جنازہ بھی ادا کی گئی ہیں۔
پشاور کے علاقے گلبہار اور اس سے ملحقہ علاقوں میں دو روز میں 12 سے زیادہ افراد کے جنازے اٹھائے گئے جبکہ صدر کے قریب گلبرگ میں تین مقامات پر ہلاک ہونے بچوں کے لیے بدھ کو فاتحہ خوانی کی گئی۔
اس کے علاوہ شہر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں جن میں اس واقعے کے ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔