’دی انٹرویو‘ میں جیمز فرانکو اور سیتھ رجین نے دو صحافیوں کا کردار نبھایا ہے جنہیں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملنے کا موقع ملتا ہے
امریکہ نے فلم ساز کمپنی سونی پکچرز پر سائبر حملے کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
سونی کو سائبر حملے اور ہیکرز کی دھمکیوں کے بعد شمالی کوریا کے صدر کے قتل کے بارے میں بنائی گئی مزاحیہ فلم ’دی انٹرویو‘ ریلیز کا ارادہ ترک کرنا پڑا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ امریکہ اسے ایک سنگین مسئلہ سمجھتا ہے۔
انھوں نے اس حملے کے لیے شمالی کوریا کو براہِ راست ذمہ دار تو نہیں ٹھہرایا تاہم کہا کہ یہ سائب
ر حملہ کسی ’ماہر‘ کا کام ہے۔
امریکہ کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی اس معاملے کی تحقیق کر رہا ہے اور سائبر حملے اور شمالی کوریا کے درمیان ربط ان تحقیقات کا اہم موضوع ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان ارنسٹ نے کہا، ’اس معاملے میں کچھ ایسا ہے جسے قومی سلامتی کا سنگین معاملہ سمجھا گیا ہے۔ اس بات کے ثبوت ہیں جو اشارہ کرتے ہیں کہ ایک انتہائی چالاک شخص نے مخصوص مقصد کے تحت یہ کارروائی کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آئی اور محکمۂ انصاف کے تحقیقاتی ادارے پوری سنجیدگی سے اس کا پتہ لگانے میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں روز کئی اجلاس ہو رہے ہیں۔‘
ادھر سونی کی جانب سے فلم ریلیز نہ کرنے کے اعلان پر سخت نکتہ چینی کی گئی ہے اور ہالی وڈ میں کئی لوگوں نے اسے اظہار کی آزادی پر حملہ قرار دیا ہے۔
امریکہ میں متعدد سینیماؤں نے فلم دکھانے سے معذرت کر لی تھی
خیال رہے کہ ہیکروں نے سونی کے کمپیوٹرز سے حساس معلومات چرائی تھیں اور پھر لوگوں کو فلم نہ دیکھنے کی تنبیہ کی تھی۔
انھوں نے 11 ستمبر 2001 کے دہشتگرد حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر فلم دکھائی گئی تو ’دنیا ڈر جائے گی۔‘
ان دھمکیوں کے بعد امریکہ میں متعدد سینیماؤں نے فلم دکھانے سے معذرت کر لی تھی۔
’دی انٹرویو‘ میں جیمز فرانکو اور سیتھ رجین نے دو صحافیوں کا کردار نبھایا ہے جنہیں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملنے کا موقع ملتا ہے اور سی آئی اے ان دونوں کو کم کو مارنے کو کہتی ہے۔
یہ فلم اس سال کرسمس پر ریلیز ہونی تھی.
اس ماہ کے آغاز میں شمالی کوریا نے سونی پر سائبر حملے میں ملوث ہونے سے انکار تو کیا تھا لیکن ساتھ ہی اس حملے کو ’صحیح قدم‘ قرار دیا تھا۔
شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی نے ملک کے سپریم فوجی ادارے کے حوالے سے کہا تھا کہ پيانگ يانگ کے حملے کے پیچھے ہونے کی بات ’مکمل طور پر افواہ‘ ہے۔
حالانکہ اس میں امریکہ کو خبردار کیا گیا تھا کہ شمالی کوریا کے ’پوری دنیا میں بڑی تعداد میں حامی اور ہمدرد‘ ہیں اور ہو سکتا ہے کہ انھوں نے یہ حملہ کیا ہو۔