افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے کنڑ کے علاوہ غزنی، ہلمند اور اوزگان میں بھی طالبان کے خلاف کارروائیاں کی ہیں
افغان حکام کے مطابق ملک کی سکیورٹی فورسز نے پاکستانی طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبے کنڑ میں فوجی کارروائی شروع کی ہے جس میں طالبان کمانڈر احمد خان سمیت متعدد طالبان کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
کنڑ صوبے کے گورنر شجاع الملک جلالہ نے کہا ہے کہ کچھ روز پہلے پندرہ سو کے قریب افغان طالبان نے ضلع دنگم کے دور دراز دیہات پر حملہ کیا تھا۔
گورنر نے مزید کہا کہ ان حملہ آوروں میں پاکستانی طالبان، لشکر طیبہ کے جنگجو بھی شامل ہیں جو افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
افغانستان کے نائب وزیر دفاع دولت وزیری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ ان حملوں کے بعد افغانستان کی سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف دنگم کے مختلف علاقوں میں مشترکہ کارروائیاں کی ہیں۔
دولت وزیری کے مطابق ابھی تک کنڑ صوبے میں 21 مسلح شدت پسندوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران 33 طالبان اور افغانستان کی سکیورٹی فورسز کے سات اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
افغانستان کا صوبہ کنڑ پاکستان کے سرحدی علاقوں سے قریب ہے جہاں مبینہ طور پر پاکستان طالبان کے
کمانڈر ملا فضل اللہ مقیم ہیں۔ پاکستان کی حکومت متعدد بار افغانستان کی حکومت سے پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کو گرفتار کر کے پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
گزشتہ ہفتے پشاور میں آرمی سکول پر حملے طالبان کے حملے 130 سے زیادہ بچوں سمیت 149 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغانستان کا دورہ کیا اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کو وہ شہادتیں مہیا کیں جن کے مطابق ملا فضل اللہ افغانستان سے پشاور کے سکول میں آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے اور حملہ آوروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔
افغانستان کی سکیورٹی فورسز کو طالبان کے خلاف کارروائی کے دوران طالبان حملہ آوروں نے جوابی کارروائیاں کی ہے جس میں کم از کم پندرہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
اتوار کے روز کنڑ صوبے کے صدر مقام اسدآباد میں ایک گاڑی باروی سرنگ سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی جس میں میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے علاوہ طالبان حملہ آوروں نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کر کے سات پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا ہے۔