اودے پور(بھاشا)مختلف حکومتوں کے زراعت سے متعلق قرض معافی پروگراموں پر سوال اٹھاتے ہوئے ریزروبینک کے گورنر رگھورام راجن نے کہاکہ اس طرح کی اسکیموںسے کاشتکاروں کو قرضوں کی فراہمی میں رکاوٹ آئی ہے۔ راجن نے ہندوستانی اقتصادیات یونین کے سالانہ اجلاس میں یہ کہا کہ کچھ ریاستوں میں اکثر مواقع پر قرض کی معافی کردی گئی۔ یہ قرض معافی اسکیمیں کتنی موثر رہی ہیں؟ حقیقت میں ہمارے سامنے جو حالات آئے ہیں ان میں یہی نظر آیا ہے کہ اس طرح کی اسکمیں بے اثر رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے بعدمیں کاشتکاروںکو قرض ملنے میں رکاوٹ آئی ہے۔ کسانوں کے ذریعہ خودکشی کئے جانے کے معاملات پر راجن نے کہا کہ اس بے حد اہم اور حساس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کئے جانے کی ضرورت ہے۔
گورنر نے کہا کہ ایک سوال یہ ہے کہ زرعی میدان میں قرض کے بوجھ کی صورت سے ہم کس طرح نمٹ سکتے ہیں اس کیلئے ہمارے سامنے اور کیا متبادل ہوسکتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ کسانوں کے ذریعہ خودکشی جیسے مسئلے پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔
خودکشی کی وجہات میں قرض کا معاملہ کس حد تک رہا۔ خصوصاً رویاتی بینکنگ کے نظام کی نظر سے دیکھنے اور دوسری جانب روایتی نظام سے ان کا بوجھ کتنا ہلکا ہواہے یہ بھی غور کرنے کی بات ہے۔
آندھراپردیش اور تلنگانہ کی حکومتوں نے گذشتہ برس ریاست میں آئے طوفان سے متاثرہ کسانوںکیلے قرض معافی کا اعلان کیا تھا۔تلنگانہ میں معاف کئے گئے قرض کا ۲۵ فیصد بینکوں کو ادا کردیا ہے۔ جبکہ آندھراپردیش نے ابتک ایسا نہیں کیاہے۔ان دونوں ریاستوں کے زرعی حلقوں میں بینکوں نے ۳ء۱ لاکھ کروڑروپئے کاقرض دیاہے۔زرعی میدان میں سبسڈی کئے جانے پر مسٹر راجن نے کہا کہ یہ دیکھناضروری ہوگا کہ جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ حقیقت میں زرعی حلقوں کے لئے مددگار ہے یا نہیں۔
انھوںنے کہا کہ اس میںمثبت پہلو یہ ہے کہ آپ فائدہ دے رہے ہیں۔ زرعی حلقوں کے سستا قرض فراہم کرارہے ہیں لیکن فکر مندی کی بات یہ ہے کہ کیا اس قرض کا صحیح استعمال ہورہاہے یہ پھر اس سے قرض کا بوجھ بڑھ رہاہے یا اس کے ذریعہ غیر ضروری سرمایہ کاری ہورہی ہے۔