دو تیونس اور تین یمن کے باشندے پاکستان سے گرفتار ہوئے تھے
مشہور زمانہ امریکی جیل گوانتا ناموبے میں کئی سال قید رہنے والے پانچ بے گناہوں کو بالآخر رہائی مل گئی ہے۔ ان پانچوں افراد کو کسی الزام کے بغیر امریکا کی اس منفرد جیل گوانتا نامو بے میں بند کیا کیا گیا تھا۔ تاہم اب انہیں رہا کر کے وسط ایشیائی ریاست قازقستان بھجوا دیا گیا ہے۔
ان میں سے دو کا تعلق تیونس سے جکہ تین کا یمن سے بتایا گیا ہے۔ یہ ان درجنوں قیدیوں میں سے تھے جنہیں بےگناہ قرار دیا گیا تھا لیکن انہیں ایک لمبے عرصے تک ان کے گھروں میں نہ بھجوایا جا سکا۔
بتایا گیا ہے کہ ان پانچوں افراد کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے بارے میں شبہ تھا کہ یہ القاعدہ کے وابستگان میں شامل ہیں۔ تاہم گوانتا نامو بے میں لائے جانے کے بعد حکومتی ٹاسک فورس نے انہی کلیر قرار دے دیا تھا کہ ان سے کسی دہشت گردی ک
ا خطرہ نہیں ہے۔
اس بارے میں پینٹا گان کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ” ان پانچ کی رہائی سے گوانتا نامو بے میں قیدیوں کی تعداد ایک سو ستائیس رہ گئی ہے۔ رواں سال کے دوران تیس قیدیوں کو براک اوبامہ کی طرف سے دی گئی نئی پالیسی کے تحت ان کے ملکوں میں بھیج دیا گیا ہے۔
پینٹاگان کے مطابق ٹاسک فورس کی طرف سے ان پانچ افراد کو اتفاق رائے سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے ان پانچ افراد کے خلاف اس سارے عرصے میں کبھی کوئی مقدمہ چلایا گیا نہ کوئی الزام عاید کیا جا سکا، اس کے باوجود انہیں گیارہ سال دنیا کی بدترین جیل میں گذارنا پڑے۔
انسانی حقوق کے ادارے اس امریکی جیل کو انسانوں کے لیے کے لیے ”بلیک ہول ” کا نام دیتے ہیں۔ گیارہ جنوری کو اس کے قیام کو تیرہ برس پورے ہو جائیں گے۔
گوانتا نامو بے میں قید بقیہ ایک سو ستائیس قیدیوں میں سے انسٹھ کے لیے بھی کہا جا چکا ہے کہ انہیں ان کے اپنے ممالک یا پھر کسی تیسرے میں ملک میں منتقل کر دیا جائے۔
تاہم ان دو تیونسی باشندوں عادل الحکیمی اور عبداللہ بن علی اللفتی کی رہائی کے بعد گوانتا نامو بے جیل میں تیونس کے مزید قیدیوں کی تعداد بارہ رہ گئی ہے۔ جبکہ تین یمنی شہریوں کو گوانتا نامو بے سے رہائی ملی ہے ان میں عاصم ثابت عبداللہ الخالقی، محمد علی حسین اور صابری محمد ابراہیم القریشی شامل ہیں۔