بولی وڈ میں ایک خلاء پایا جاتا ہے اور اس کی گونج میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، وہ یہ کہ ٹاپ اداکارآں کو ان کے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔اس حوالے سے تازہ یاد دہانی ایک برطانوی روزنامے کے مضمون میں سامنے آئی جس کے مطابق شاہ رخ خان اور ان کے دیگر ساتھی ایک فلم سے چالیس کروڑ کما لیتے ہیں، اس کے مقابلے میں دپیکا پڈوکون ایک فلم کرنے پر صرف سات کروڑ ہی حاصل کرپاتی ہیں اور اس بات نے لوگوں کو حیران کردیا ہے۔بولی وڈ میں تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں اور مقبول ترین اداکارائیں جیسے کرینہ کپور، ودیا بالن، کنگنا راناوت، پریانکا چوپڑا اور دپیکا پڈوکون ان چند اسٹارز میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس صنفی امتیاز کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس صنفی مساوات کے خاتمے سے سب سے زیادہ فائدہ ان کا ہی ہوگا۔مگر یہ امر ان کی رائے کی اہمیت کم نہیں کرتا بلکہ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ حسینائیں مردوں کی بالادست صنعت میں نئے اعتماد کے ساتھ ابھر رہی ہیں۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہکیا بولی وڈ ہیروئینز کے حوالے سے تعصب رکھتا ہے؟حقیقت عام طور پر بہت واضح نہیں ہوتی، تو خواتین آئیں اس حوالے سے ذرا گہرائی میں جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے۔لمبی عمر: بولی وڈ ہیروز کو اپنی بیٹیوں کی عمر کی ہیروئینز کے ساتھ عشق لڑانے کا موقع ملتا ہے اور یہ رجحان کافی پرانا ہے۔ماضی میں سپراسٹارز جیسے دیوآنند، راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کے چہروں پر جب تک جھریاں نہیں پڑ گئیں، تب تک وہ اسکرین پر نئی آنے والی نوجوان ہیروئنز کے ساتھ رومانٹک کردار ادا کرتے رہے۔مگر موجودہ عہد کے سپراسٹارز کو اس مسئلے کا سامنا نہیں۔سخت فٹنس تربیت کی مہربانی اور مختلف مواقعوں پر کاسمیٹک سرجنز کی جانب رخ کرنے سے ہیروز اپنے کیرئیر کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے توسیع دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اس چیز نے ہیروز جیسے اکشے کمار کو خود کو دوبارہ نئے انداز سے متعارف کرانے کے لیے کافی وقت دیا ہے جو ابتداء کی غلطیوں کے بعد بتدریج صف اول میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔
علاوہ ازیں طویل عرصے تک کام کرنے سے ہیروز کو کئی نسلوں تک وفادار پرستاروں کا بڑا حلقہ بنانے کا موقع بھی ملتا ہے اور اس لیے یہ حیرت کی بات نہیں کہ مارکیٹ میں ان کا نام اتنا کیوں چلتا ہے۔قابل فروخت: ہندوستان میں توسیع پاتی ٹیلیویڑن ایڈورٹائزنگ صنعت سے منسلک کاسٹنگ ڈائریکٹر گائتری اسمتھا کے بقول”ایک مقبول مرد اداکار جیسے عامر خان آمدنی کے حصول کا یقینی ذریعہ ثابت ہوتے ہیں۔ عامر جانتے ہیں کہ وہ صرف اوورسیز رائٹس کا مطالبہ کر کے بھی منافع حاصل کرسکتے ہیں، اور اسی وجہ سے کوئی بھی ڈائریکٹر ان کی تاریخوں کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔”انہوں نے مزید بتایا “یہاں تک کہ باصلاحیت اور کامیاب رنبیر کپور بھی اب تک اس مقام پر نہیں پہنچ سکے ہیں، مگر وہ جلد اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔”باالفاظ دیگر پروڈیوسرز کسی شخص کو بلاوجہ فائدہ نہیں پہنچاتے۔ درحقیقت وہ ایک بڑی فلاپ کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے کے خطرے سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ ایک اسٹار کے چیک پر دستخط کرنے سے پہلے لاگت کا تخمینہ اور خطرات کا تفصیلی تعین کرتے ہیں۔اسکرپٹ: ایک جریدے ورائٹی کی رپورٹ کے مطابق فلمی دنیا مردوں کی سمجھی جاتی ہے، اور ہولی وڈ میں بھی خواتین اداکارآں کو ڈائیلاگز کا صرف تیس فیصد حصہ ہی دیا جاتا ہے جبکہ بولی وڈ میں یہ صورتحال اس سے بھی بدتر ہے۔
دہائیوں سے بولی وڈ انڈین سینما میں خواتین کے عہد کو مناتا چلا آرہا ہے۔ یقیناً نرگس کو مدر انڈیا، سچترا سین کو آندھی، سمیتا پاٹل کو مرچ مصالحہ، ریکھا کو امرآ جان، شبانہ اعظمی اور نندیتا داس کو فائر جبکہ تبو کو چاندنی بار اور استتو میں دیکھ کر سب پرجوش ہوجاتے ہیں۔ان اداکارآں نے خود کو آگے بڑھا کر انڈسٹری میں خواتین کے لیے کچھ جگہ مختص کرائی ہے مگر ان کی کوششیں مرکزی سطح پر ہیروئینوں کے گرد گھومتی فلموں کے لیے تحریک نہیں بن سکی ہے۔مگر ماضی قریب میں اس رجحان میں خوش آئند تعطل آیا اور فلمیں جیسے کہانی، ڈرٹی پکچر، کوئین، میری کوم اور ہائی وے میں اداکارآں کو کمرشل پراجیکٹس میں مرکزی کردار نبھاتے دیکھا گیا۔کوئین خاص طور پر ایک نئے طرز کی مضبوطی کا اظہار کرتی ہے۔ کنگنا راناوت نے رانی کے کردار میں اپنے جسم کی نمائش نہیں کی اور نہ ہی ہر وقت آنسو بہائے۔ اس کردار نے بولی وڈ ہیروئینز کے روایتی حربوں جسمانی نمائش اور آنسوٓں کو مسترد کردیا اور سب سے اہم بات یہ کہ رانی نے دشمنی اور انتقام جیسی واضح تراکیب کو مسترد کرتے ہوئے اپنے لیے وقار اور روح کا انتخاب کیا۔اس طرح کی خواتین کے گرد گھومنے والی فلمیں بولی وڈ میں ایک معمول بنتا جارہا ہے جس سے ہندوستانی معاشرے میں تبدیلی کی حقیقت کا اظہار ہوتا ہے متعدد ہندوستانی خواتین اب اپنی پسند کا پیشہ منتخب کررہی ہیں مگر فلمی صنعتوں میں یہ بات فطری ہے کہ وہ آن اسکرین مضبوط خواتین کو دیکھنے کی خواہشمند ہوتی ہیں۔مگر جو چیز اب تک نہیں ہوسکی ہے وہ معاوضے کی ادائیگیوں میں مساوات ہے۔لیکن آپ یقین کرسکتے ہیں کہ پیسہ جنس کی تفریق نہیں کرتا۔ جب خواتین کو زیادہ معاوضہ دینا قابلِ فہم ہوگا، تو مارکیٹ یہی کرے گی۔آئی بی این لائیو کی ایک رپورٹ میں بولی وڈ کے بڑے ڈائریکٹرز کے معاوضوں کی درجہ بندی کی گئی ہے اور اس فہرست میں فرح خان فی فلم سات سے آٹھ کروڑ فیس کے ساتھ سب سے اوپر ہیں جو کہ پریا درشن کے معاوضے سے دوگنا زیادہ ہے۔اس کے علاوہ تفریحی صنعت پتھر کی بنی ہوئی نہیں یہاں ایسے بھی شعبے ہیں جو مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ بہتر معاوضے کی پیشکش کرتے ہیں۔گائتری اسمتھا کے بقول “مثال کے طور پر دن کے اوقات کے ٹیلیویڑن ڈرامے اور ماڈلنگ دونوں شعبوں میں خواتین مردوں سے زیادہ معاوضہ لیتی ہیں جس کی وجہ یہاں مارکیٹ تقاضے مختلف ہونا ہے۔ ان شعبوں میں آپ توقع کرسکتے ہیں کہ خواتین اپنے مرد ساتھیوں کے مقابلے میں پچیس سے چالیس فیصد زیادہ معاوضہ لیتی ہیں”۔ایک کاسٹنگ ڈائریکٹر ہونے کے ناطے گائتری اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ وہ کیا بات کررہی ہیں۔گزرے برسوں میں غیرمعمولی اداکارائوں نے معاوضے کے میدان میں مردوں کی برابری کی ہے۔فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ہیما مالنی وہی معاوضہ لیتی تھیں جو ان کے آن اسکرین ہیروز کو ملتا تھا۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مالاشری پچھلے 25 سالوں سے فلم انڈسٹری کا حصہ ہیں۔بولی وڈ میں اس حوالے سے حالیہ استثنا یقیناً ودیا بالن ہیں۔
اس باصلاحیت اداکارہ نے شادی کی، جسمانی وزن بڑھایا اور پھر بھی ہیروئین کے گرد گھومتی ہٹ فلمیں جیسے کہانی اور ڈرٹی پکچر دیں۔ مزید یہ کہ ناظرین اور ناقدین دونوں ان کے گرویدہ نظر آتے ہیں۔مگر جو چیز ودیا بالن اب تک حاصل نہیں کرسکی ہیں اور اپنی دیگر ساتھیوں کی طرح اس کی حقدار بھی ہیں وہ مساوی یا تقریباً مساوی معاوضہ ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ ایسے اشارے سامنے آرہے ہیں، جن سے پتہ لگتا ہے کہ رجحان تبدیل ہونے والا ہے۔ مضبوط کرداروں کے ذریعے مستحکم کمرشل کامیابی ہی ادائیگیوں کے اسٹرکچر کو دوبارہ شکل دینے کے لیے ضروری ہے۔غیر مساوی معاوضوں پر اپنے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران دپیکا پڈوکون نے کہا تھا ” اگر آپ ہمارے معاوضے کا موازنہ مردوں سے کریں تو ہاں وہ یقیناً بہت کم ہے۔ تاہم اگر آپ یہ دیکھیں کہ لڑکیوں کو ماضی میں کیا ملتا تھا اور اب گزشتہ ایک یا دو سال کے دوران انہیں کیا معاوضہ دیا جارہا ہے تو پھر میں کہہ سکتی ہوں کہ ایک بڑی تبدیلی آئی ہے اور ہم پرامید رہ کر کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں، مگر یہ ایک جنگ نہیں”۔