ممبئی ۔عامر خان کی فلم “پی کے” اپنے پہلے پوسٹر کی ریلیز کے بعد سے تنازعات کی زد میں ہے اور اس کی شدت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔توہم پرستی کے خلاف آواز اٹھانے والی اس فلم پر ہندوستان بھر میں متعدد ہندو انتہاپسند گروپس کی جانب سے احتجاج کیا جارہا ہے اور کئی شہروں میں سینما گھروں میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔تاہم فلم کے ڈائریکٹر راجکم
ار ہیرانی نے پہلی بار خاموشی توڑتے ہوئے فلم کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ “پی کے” کے بارے میں کچھ گروپس کے احتجاج پر فکرمند ہیں۔انہوں نے کہا کہ “پی کے” کی پوری ٹیم کی جانب سے وہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم تمام مذاہب اور عقائد کا احترام کرتے ہیں۔راجکمار ہیرانی نے کہا کہ ہماری فلم مہاتما گاندھی اور سنت کبیر کے خیالات سے متاثر ہے اور اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ دنیا میں رہنے والے تمام انسان برابر ہیں اور ہم محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔دوسری جانب ہندو انتہاپسند جماعتوں کے احتجاج کے باوجود ہندوستانی حکومت نے عامر خان کی فلم “پی کے” کو سینما گھروں سے اتارنے سے انکار کر دیا ہے۔جونیئر ہندوستانی وزیر اطلاعات راجیا وردھن سنگھ راتھوڑ نے کہا کہ فلم کو سینسر بورڈ سے کلیئر کیا گیا ہے اس لئے حکومت اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے گی۔یہ فلم ہمیں مذہبی اجارہ داری پر تنقیدی جائزہ پیش کرنے والی فلم او مائی گاڈ کو یاد دلاتی ہے جس نے 2012 میں یہی کام کیا تھا۔ اکشے کمار کی او مائی گاڈ زیادہ سخت طنز تھی جو کہ پی کے کے مقابلے میں زیادہ اسمارٹ اور پرمزاح ہوسکتی ہے مگر وہ دل کو چھولینے اور زندگی کی پرزور توثیق کے قریب نہیں تھی۔پی کے کسی فرد کے دنیا کو دیکھنے کا منہ پھٹ اظہار ہے، اگر او مائی گاڈ چہرے پر تھپڑ اور بیدار ہونے کی کال تھی تو پی کے کا گرمجوش معائقہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم درست راستے پر جارہے ہیں، وہ بغیر کسی تباہی کے معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے۔لوگوں کے پاس درست خیالات ہوتے ہیں اور ہم نجات کی راہ سے صرف چند سوالات کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگر کچھ افراد مذہب کو نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ ہم پر ہے کہ مذہب کو محبت پھیلانے کے لیے ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں۔خدا کے بندوں اور عقیدہ بشارت نجات کی نقالی قابل دید ہے خاص طور وہ منظر جہاں پی کے دیوتاؤں کے اسٹکرز اپنے چہرے پر لگا لیتا ہے جس کا مقصد ہر چوری کے بعد ہونے والی پٹائی سے بچنا ہوتا ہے۔ طنز کا یہ تیر یاد دلاتا ہے کہ مذہب کا حوالہ ان لوگوں کے ایک ڈھال ثابت ہوسکتا ہے کہ جو خدا کے بارے میں کسی قسم کی تنقید کرتے ہو۔یہ فلم بتاتی ہے کہ مذہب خدا سے ذاتی تعلق کا نام ہے اور لوگوں کو بہتر انسان بناتا ہے مگر جب لوگ اسے ایک ایجنڈے یا دیگر کو دبانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں تو وہ مذہب کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں یا جیسے پی کے کہتا ہے ” آپ نے رانگ نمبر ملایا ہے”۔اس فلم کی سب سے بڑی مضبوطی اور سب بڑی کمزوری بھی اس کا ہلکا پھلکا انداز ہے جو اسے محفوظ اور غیرمتنازع بناتی ہے۔
اگرچہ یہ اچھا امر ہے کیونکہ اس سے یہ بڑی تعداد میں ناظرین تک رسائی حاصل کرسکتی ہے اور کسی کے ناراض نہ ہونے کی ضمانت ہے مگر یہ بدقسمتی بھی ہے کہ اس میں ایمان اور معاشرے کے مسائل کو اٹھایا گیا مگر انہیں حقیقی انداز میں حل ہوتے نہیں دکھایا گیا۔ایک معاشرتی طنز اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا اور میں اس فلم کے ہر پہلو سے متفق ہوں۔یہ فلم معاشرے میں مباحثے کی حوصلہ افزائی کے لیے بہترین نکتہ آغاز ہے۔ اس طرح کی کوئی فلم دس سال پہلے نہیں بنائی جاسکتی تھی۔ یہ مخلص اور اچھا احساس ددلانے والی فلم لوگوں کی روح کی تلاش اور اپنی و دیگر کی زندگیوں میں بہترین لانے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔