’’بی۔جے۔پی۔ سے جو دانشور جڑ رہے ہیں وہ ان دانشوروں سے کہیں زیادہ تعمیری رخ رکھتے ہیں جو بائیں بازو سے جڑے ہیں۔ بائیں بازوکی پارٹیاں ان دانشوروں کو جوڑتی ہیں جو برائی دیکھتے تو ہیں لیکن صرف برائی ڈھونڈنے تک ہی محدود رہتے ہیں۔تنقید کے سِوا ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک سب کچھ ہمیشہ کے لئے غلط ہے۔ ایسے ہی ماحول کی وہ تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن بی۔جے۔پی۔ سے جو دانشور منسلک ہو رہے ہیں وہ کامیاب آئی۔ٹی۔ انجینیئر ہیں، کامیاب سائینسداں ہیں اور بڑی کمپنیوں میں اونچے عہدوں پر کام کر رہے ایکزیکیوٹوہیں۔ غریبی بیچ کر یا غلطی تلاش کرکے انھیں اپنا کیریئر بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں بائیں بازو سے جڑے دانشور اس سب سے ہی اپنا کیریئر بناتے ہیں، ہم سے جو دانشور جڑ رہے ہیں وہ پہلے سے
ہی کامیاب ہیں، اپنا کیریئر بنا چکے ہیں اور ملک کے بارے میں فکرمند ہیں۔ ہمارے پاس جو لوگ ہیں وہ مشکلات کا حل ڈھونڈنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ پہلے سے ہی کامیاب ہیں، انھیں ان عزائم سے کمائی کرنے کی ضرورت نہیں؛ وہ صرف ہندوستان کے سامنے درپیش مختلف مسائل کا حل ڈھونڈنے کے فکرمند ہیں۔‘‘
گوا میں حال ہی میں منعقد ’انڈیا آئیڈیاز کانکلیو‘ (India Ideas Conclave)میں شرکت کرکے لوٹنے پر مدھو کِشور نے آر۔این۔آئی۔ کے ساتھ ایک خاص ملاقات میں ان الفاظ میں اپنے تجربہ کو پیش کیا۔ گوا کے اپنے تجربہ کو بتاتے ہوئے کِشور نے کہا: ’’مجھے ذاتی طور پر ایسے لوگوں سے ملنے اور ان کی بات سننے میں بڑا لطف آیا جو مثبت توانائی کے ساتھ وہاں آئے تھے۔ یہ لوگ ہندوستان کے لئے کچھ بہترکرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مدھو کِشور خوش ہیں کہ بی۔جے۔پی۔ نے پہلی باران دانشوروں کے لئے ایک فورم بنایا ہے جو بائیں بازو کی سیاست سے متعلق نہیں ہیںاور جو ’’بائیں بازو کی سیاست کو ہندوستان کی فلاح کے لئے نقصاندائک سمجھتے ہیں۔‘‘ مدھو کشور کہتی ہیں: ـ ’’میں خود بائیں اسپیکٹرم (spectrum) سے آئی ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ ان کی سیاست کتنی نقصاندائک ہے۔ایسے میں ہم جیسوں کے پاس جانے کے لئے کوئی فورم نہیں تھا۔ یہ اس معنی میں ایک اہم کاوش تھی، کیوں کہ میں نہ تو بی۔جے۔پی۔ سے ہوں اور نہ بی۔جے۔پی۔ پارٹی کی وفادار ہوں۔میرے ٹویٹس (tweets)بھی اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ میں مختلف مدّوں (issues)پر ان کی حمایت کرتی ہوں اور جہاں تنقید کرنا ہوتی ہے تو پیچھے نہیں ہٹتی ہوں۔ جب ہمیں لگتا ہے کہ وہ کچھ اچھا کر رہے ہیں تو ہمیں مسرت ہونا لازمی ہے۔ میرے جیسے کئی افراد ہیں جو بی۔جے۔پی۔ کے مفاد میں تنقید کرتے ہیں۔‘‘
کشوربائیں بازو کی یا ان کی سرپرستی میں چل رہی غیر سرکاری تنظیموں کی کھل کر تنقید کرتی ہیں۔ ’’بائیں بازو نے غربت کو سجا کر پیش کرنے کا طریقہ اپنایا ہے۔ خاص طور پر ان کے ساتھ جو غیر سرکاری تنظیمیں منسلک ہیں ان کی یہی روش ہے۔ جب اور جہاں بھی فسادات ہوتے ہیں تو انھیں اس میں پیسا دکھائی دیتا ہے۔ وہ مطالعہ یہاں کرتے ہیں لیکن کولمبیا یونیورسٹی میں جاکر پیپر پیش کرتے ہیں۔ مسئلہ یہاں درپیش ہوتا ہے لیکن اس پر بحث امریکہ، ڈنمارک اور سویڈن میں ہوتی ہے۔ اس طریقہ کار سے مجھے نفرت ہوتی ہے۔ ہمارے معاملے میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ دانشور امریکہ سے آتے ہیں اور ہندوستان کے مفاد میں بات کرتے ہیں۔ وہ ہندوستان کو ایک بہتر ہندوستان میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
جن کو معلوم نہیں ان کی آگاہی کے لئے گوا میں حال ہی میں اختتام پذیر انڈیا آئیڈیاز کانکلیوہندوستان کی دائیں بازو کی جانب سے دانشوروں کا ایک پائدار فورم تعمیر کرنے کی جانب ایک اہم قدم تھا۔اس کانفرنس میں ۷۰ سے زائد نامور علماء اور دانشور وں نے ۴۰۰ سے زائد منتخب شرکاء سے خطاب کیا۔
آر۔این۔آئی۔ نیوز بیورو