دھاکہ میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں
بنگلہ دیش میں پولیس کا کہنا ہے کہ انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے پر جھڑپوں کے دوران حزب اختلاف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے دو کارکنان
کو گولی مار کر ہلاک کردیا گيا ہے۔
واضح رہے کہ یہ جھڑپ بنگلہ دیشن میں برسراقتدار پارٹی عوامی ليگ کے حامیوں اور بی این پی کے درمیان خالدہ ضیا کی نظر بندی کے بعد ہوئی ہے۔
بنگلہ دیش کے اخبار دا ڈیلی سٹار میں شائع خبر کے مطابق پولیس نے دارالحکومت ڈھاکہ کے جنڈاریا علاقے کے ایک گھر سے 20 پٹرول بم بھی برآمد کیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ہلاکت پیر کو ملک کے شمالی شہر ناتورے میں ہوئی ہیں اور یہ گذشتہ سال ہونے والے متنازع انتخابات کا ایک سال مکمل ہونے کے موقعے پر ہوئی ہیں۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق دو موٹر سائیکل سوار نے حکومت مخالف مظاہروں پر اندھادھند گولیاں برسائیں جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔
پولیس ابھی مرنے والوں کی نشاندہی نہیں کر سکی ہے۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ مہلوکین حزب اختلاف کی طلبہ جماعت سے تعلق رکھتے تھے جبکہ موٹرسائکل سوار کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
خالدہ ضیا نے گزشتہ ہفتے حکومت سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ملک میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
گذشتہ روز سیکیورٹی فورسز نے حزبِ اختلاف کی رہنما خالدہ ضیا کو ان کی پارٹی کے دفترسے نکلنے سے روک دیاتھا اور دارالحکومت میں تمام احتجاجی مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے۔
پولیس کا موقف ہے کہ اتوار کے روز مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے لگائی جانے والی اس پابندی کا مقصد پر تشدد مظاہروں کی روک تھام کرنا ہے۔
خالدہ ضیا اور وزیر اعظم شیخ حسینہ دیرینہ سیاسی حریف ہیں اور دونوں کی جماعتوں نے مظاہروں پر پابندی کے باوجود پیر کے روز مظاہرے کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے گذشتہ اتخابات میں یہ کہ کر حصہ نہیں لیا تھا کہ ان میں دھاندلی ہوگی، پیر کو ان انتخابات کی پہلی سالگرہ ہے۔
خالدہ ضیا کی پارٹی نے انتخابات میں بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے اس میں حصہ نہیں لیا تھا
خالدہ ضیا نے ایک بڑے حکومت مخالف مظاہرے کی قیادت کرنے تھی لیکن ہفتے کی شام ان کو اپنے آفس سے نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔خالدہ ضیا نے گزشتہ ہفتے حکومت سے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور ملک میں نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال کے انتخابات کے بعد سے اب تک حزبِ اختلاف کے درجنوں کارکن لاپتہ ہوچکے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سیاسی کارکنوں کی گمشدگی میں حکومت ملوث ہے۔