حکام کے مطابق ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر تین مسلح افراد کے حملے میں آٹھ صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں مشہور رسالے ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر حملہ کرنے والے ایک مشتبہ حملہ آور نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا ہے جبکہ دیگر دو مشتبہ حملہ آوروں کی تلاش کے لیے جاری آپریشن کے دوران سات افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اس سے پہلے پولیس حکام کا کہنا تھا کہ رسالے پر حملے کرنے والے تین مشتبہ حملہ آوروں کی شناخت
ہو گئی ہے۔
حکام کے مطابق ’چارلی ایبڈو‘ کے دفتر پر تین مسلح افراد کے حملے میں آٹھ صحافیوں اور دو پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔
پیرس: سیاسی جریدے کے دفتر پر حملہ، 12 افراد ہلاک
دوسری جانب اطلاعات کے مطابق پیرس کے ایک میٹرو سٹیشن پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار زخمی ہو گیا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ فائرنگ کے واقعے کا تعلق ’چارلی ایبڈو‘ پر حملے سے ہے کہ نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ 18 سالہ حمید مراد نے شارل ول میزیئر پولیس سٹیشن میں خود کو حکام کے حوالے کیا۔ اطلاعات کے مطابق حمید مراد نے مشتبہ حملہ آور کے طور پر میڈیا میں اپنا نام آنے پر خود کو پولیس کے حوالے کیا اور ان سے اس وقت پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
اس سے پہلے فرانسیسی حکام کے مطابق مشتبہ حملہ آوروں کی شناخت ہو گئی ہے۔ ان میں ایک 32 سالہ شریف ہیں اور ان کے 34 سالہ بھائی سعید۔ تیسرے حملہ آور کا نام حمید مراد ہے اور ان کی عمر 18 سال ہے۔
فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے اب سے کچھ دیر پہلے ٹی وی پر قوم سے خطاب میں قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جمعرات کو قومی سوگ کا دن قرار دیا۔
انھوں نے کہا ’ہمارا اتحاد ہی ہمارا سب سے بہترین ہتھیار ہے۔‘
ادھر فرانس کے مختلف شہروں میں اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
فرانس میں بدھ کو ہونے والے حملے کو کئی دہائیوں میں سب سے جان لیوا حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حملے کے بعد پورے ملک میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے اور دارالحکومت پیرس میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔
فرانس کے چیف پراسیکیوٹر فرانکو مولنز کا کہنا تھا کہ حملے میں 11 افراد زخمی ہوئے جن میں چار کی حالت نازک ہے
فرانس کے چیف پراسیکیوٹر فرانکو مولنز کا کہنا تھا کہ حملے میں 11 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں چار کی حالت نازک ہے۔
انھوں نے صحافیوں کو بتایا کہ حملہ آوروں کو تلاش کرنے کے لیے تمام وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق نقاب پوش مسلح افراد اپنی گاڑی چھوڑ کر دوسری گاڑی میں پیرس کے شمال کی جانب فرار ہو گئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انھوں نے حملہ آوروں کی جانب سے چارلی ایبڈو کے دفتر کے اندر اور باہر کم سے کم 50 گولیوں کی آوازیں سنیں۔
اس سے پہلے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے جائے وقوعہ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ دہشت گردی ہے اور ایک غیرمعمولی ظالمانہ طرز عمل ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہزاروں افراد نے شمعیں روشن کیں
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں کو بزدلانہ انداز میں قتل کیا گیا، ہمیں اس وجہ سے دھمکایا گیا کیونکہ ہمارا ملک آزادی پسندوں کا ملک ہے۔‘
دوسری جانب امریکہ کے صدر براک اوباما نے چارلی ایبڈو کے دفتر پر کیے جانے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملہ آوروں کو تلاش کرنے میں مدد فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور جرمن چانسلر انگلیلا میرکل نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کی مذمت کی ہے۔
یورپی یونین کے صدر ژاں کلود یونکر نے کہا ہے کہ انھیں اس ظالمانہ اور غیر انسانی فعل پر صدمہ ہوا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ہلاک شدگان کے لیے اور رسالے کے حق میں مہم شروع ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہزاروں افراد نے شمعیں روشن کیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نےایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومے کے حوالے سے بتایا کہ امریکی ایجنسی اس واقعے کی تفتیش کرنے میں فرانس کی مدد کر رہی ہے۔