40 ملکوں کے سربراہان کی سکیورٹی کے لیے پیرس میں 2000 پولیس اہلکار جبکہ 1350 فوجی تعینات کیے گئے ہیں
فرانس کے جریدے چارلی ایبڈو پر حملے اور تشدد کے نتیجے میں 17 افراد کی ہلاکتوں کے خلاف فرانسیسی عوام نے پیرس کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع
میں شرکت کی جس میں اظہارِ یکجہتی کے لیے 40 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔
اتوار کو نکالی جانے والی اس ریلی میں ایک اندازے کے مطابق تیس لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی جن میں برطانوی وزیراعظم، جرمن چانسلر آنگیلا میرکل، فلسطینی صدر محمود عباس، مالی کے صدر ابراہیم بابوچر کیتا، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک، اردن کے شاہ عبداللہ اور ان کی اہلیہ رانیہ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتنیاہوسمیت کئی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔
اس موقعے پر فرانس کے صدر فرانسواں اولاند کا کہنا تھا کہ ’آج پیرس دنیا کے دارالحکومت کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔ آج ہمارا سار ملک اٹھ کھڑا ہو گا۔‘
یہ ریلی پیلا ڈی لا رپبلک کے مقام سے شروع ہوئی اور پیلا ڈی نیسیوں پر اختتام پذیر ہوئی جس کی قیادت ہلاک ہونے والے رشتہ داروں نے کی۔
فرانس کے کئی دوسرے شہروں میں بھی اسی طرح کی ریلیاں نکالی گئیں جن میں وزارتِ داخلہ کے مطابق 37 لاکھ کے قریب افراد نے شرکی جن میں سے 16 لاکھ کے قریب افراد پیرس کی ریلی میں شریک ہوئے۔
40 ملکوں کے سربراہان کی سکیورٹی کے لیے پیرس میں 2000 پولیس اہلکار جبکہ 1350 فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ پولیس چارلی ایبڈو اور ایک کوشر سپر مارکیٹ پر حملہ کرنے والے مسلح افراد کے ساتھیوں کی تلاش کر رہی ہے۔
ریلی سے پہلے ایک ویڈیو منظرِعام پر آئی ہے جس میں سپر مارکیٹ پر حملہ کرنے والے مسلح شخص احمدی کولیبالی کو عسکریت پسند گروپ دولتِ اسلامیہ کی تائید کرتے ہوے دیکھیا گیا ہے۔
ویڈیو میں احمدی کولیبالی کا کہنا ہے کہ وہ چارلی ایبڈو پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کام کر رہا ہے ’ اپنی کارروائی کو زیادہ پر اثر بنانے کے لیے ہم نے اپنی ٹیم کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔‘
کولیبالی نے سپر مارکیٹ میں چار یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا تھا اور جمعرات کے روز ایک خاتون پولیس اہلکار کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل فرانس بھر میں سات لاکھ سے زیادہ افراد نے جریدے چارلی ایبڈو پر حملے اور تشدد کے نتیجے میں ہلاکتوں کے خلاف ملک بھر میں بڑے پیمانے پر ریلیاں نکالی ہیں۔
یہ ریلیاں دارالحکومت پیرس، اولینز، نیس، ٹولوژ اور نوانت میں ان واقعات میں ہلاک ہونے والے مختلف افراد کی یاد میں نکالی گئیں۔
جریدے چارلی ایبڈو پر حملے میں صحافیوں کی ہلاکت کے بعد دو پولیس اہلکاروں کی ہلاکت اور اس کے بعد ایک کوشر مارکیٹ میں شہریوں کی ہلاکت نے گذشتہ تین دن سے ملک بھر میں خوف اور سراسیمگی کا ماحول قائم کیے رکھا۔
ان ریلیوں میں لوگوں نے بینرز اٹھا رکھے ہیں جن پر ’میں نسل پرستی کے خلاف ہو‘، ’اتحاد‘ اور ’میں چارلی ہوں‘ کے الفاظ واضح ہیں۔
فرانسیسی وزیراعظم مینوئل والز نے کوشر مارکیٹ کے باہر ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج ہم سب چارلی ہیں، ہم سب پولیس اہلکار ہیں اور ہم سب فرانس کے یہودی ہیں۔‘
فرا نس بھر میں اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے اور صرف پیرس کےگرد مزید پانچ سو فوجی تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
فرانس کے وزیر داخلہ بیرنارڈ کازنو نے کہا ہے کہ ملک کی حفاظت کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے وعدہ کیا کہ اتوار کو پیرس میں ہونے والی بڑی ریلی کے لیے ’غیر معمولی‘ انتظامات کیے جائیں گے جن میں محتلف چھتوں پر ماہر نشانہ بازوں کی تعیناتی شامل ہے جبکہ شہر بھر میں 5500 پولیس اور فوج کے اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہوں گے۔
اتوار کو اس یونٹی مارچ میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرن، جرمن چانسلر آنگیلا میرکل ، ترکی کے وزیراعظم احمد دواؤ اوغلو، سپین کے صدر ماریانو راخوائے اور روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف شریک ہوں گے۔
یہ یونیٹی مارچ پیرس کے رپبلک محل کے پاس سے مقامی وقت کے مطابق تین بجے شروع ہو گا۔
پولیس اب کوشر مارکیٹ پر حملہ کر کے یرغمال بنانے والے حملہ آور امادی کولیبالی کی گرل فرینڈ کو ڈھونڈ ہی ہے۔
یاد رہے کہ پولیس نے کارروائی کر کے چارلی ایبڈو پر حملہ کرنے والے دونوں بھائیوں شریف اور سعید کواشی کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ دوسری جانب امادی کولیبالی کو بھی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں آٹھ صحافی، دو پولیس اہلکار اور کوشر مارکیٹ میں موجود چار یرغمالی شامل ہیں جن کے علاوہ 11 افراد زخمی ہیں۔
امادی کولیبالی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک خاتون پولیس افسر کو ہلاک کرنے کے واقعے میں بھی ملوث ہیں۔