کراچی (اینجنسی )اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ مرکزی بینک کے انتظام سیالیت کے بارے میں تجزیہ کاروں کے خیالات غلط فہمی یا زری متغیرات کے جزوی تجزیہ کا نتیجہ ہیں، یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ اسٹیٹ بینک کا انتظام سیالیت بی
نکوں کو منافع کمانے میں مدد دے رہا ہے یا حکومت کی قرضوں کی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہے۔
مرکزی بینک سے جاری بیان کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے انتظامِ سیالیت کے اقدامات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قیمتوں کے استحکام کا زری پالیسی کا مقصد پورا کیا جائے تاکہ اقتصادی نمو کے لیے سازگار ماحول موجود ہو خاص طور پر درمیانی ہدف یہ ہوتا ہے کہ زر کے مجموعی اضافے کو محفوظ حدوں کے اندر رکھا جائے، یہی امر قیمتوں کے استحکام کے ہدف سے ہم آہنگ ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بینکاری نظام میں روز مرہ سیالیت کا انتظام کیا جاتا ہے جس کے لیے کوشش کی جاتی ہے کہ بازار زر کا شبینہ ریپو ریٹ (اوورنائٹ منی مارکیٹ ریپو ریٹ) شرح سود کوریڈور کے اندر رہے۔یہ کوریڈور اسٹیٹ بینک کے ریپو اور ریورس ریپو ریٹ سے متعین ہوتا ہے، اس مقصد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ موزوں اور مناسب وقفے سے سیالیت داخل یا جذب کی جاتی رہے، حالیہ عرصے میں اسٹیٹ بینک کی طرف سے سیالیت کا دخل کرنا ماضی کے رجحانات کے مقابلے میں خاصا بڑھ چکا ہے۔
، ان غیر معمولی تبدیلیوں کا نوٹس لینے والے مارکیٹ کے کئی تجزیہ کار یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کا انتظام سیالیت بینکوں کو منافع کمانے میں مدد دے رہا ہے یا حکومت کی قرضوں کی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہے۔ان خیالات کی بنیاد غلط فہمی یا زری متغیرات کا جزوی تجزیہ ہے، اسٹیٹ بینک سمجھتا ہے کہ ایسے تجزیے کی بنیاد پر گمراہ کن نتائج اور توقعات سے بچنے کے لیے ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ضروری ہے، سیالیت کی صورتحال اور بازارِ زر کے سودوں (اوپن مارکیٹ آپریشنز)کا تجزیہ کرتے وقت سسٹم میں رسد زر (منی سپلائی) کی مجموعی نمو اور اس کے اجزائے ترکیبی کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے اور فی الوقت زر کی رسد کے اجزائے ترکیبی حقیقی معیشت میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کو ظاہر کر رہے ہیں۔