یونیورسٹی انتظامیہ مسیحی علماء کی ناراضگی پر بے بس ہو گئی
امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی نے اپنے ہاں قائم گرجا گھر کے میناروں سے اذان کی آواز سنانے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سے قبل یہ پروگرام مسلمان طلبہ کی سہولت کے لیے بنایا تھا کہ وہ جمعہ نماز کے اوقات کے وقت متوجہ ہو سکیں۔
نئے اعلان کے مطابق مسلمان طلبہ پہلے گرجے کا سامنے ایک کمرے میں جمع ہوں گے اور اس کے بعد گرجا گھر م
یں نمازجمعہ کے لیے مخصوص کمرے میں جائیں گے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے جمعہ کے روز اذان دینے کے منصوبے کے اعلان پر نمایاں مسیحی علما نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے نائب صدر برائے تعلقات عامہ مائیکل سکان فیلڈ کا کہنا ہے کہ اذان کی اجازت دینے کے فیصلے کی منسوخی کے باوجود انتظامیہ یونیورسٹی میں برداشت اور محبت کے ماحول کے لیے کوشاں رہے گی۔
اب منسوخی اجازت کے بعد مسلمان طلبہ کی ایسوسی ایشن کے ارکان گرجے کی گھنٹیاں بجنے سے تین منٹ پہلے اذان دے لیا کریں گے تاکہ گھنٹیوں کی آواز کے دوران اذان کی آواز نہ گونج رہی ہو۔
واضح رہے یونیورسٹی انتظامیہ کے اس نئے فیصلے کے بعد بھی انجیل کی تعلیم پر مامور فرینکلین گراہم نے یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں مسلمان طلبہ کی حمایت نہ کریں کہ عیسائیوں پر تشدد کے حوالے سے مسلمانوں کا ہی نام آتا ہے۔
فرینکلین گراہم نے فیس بک پر لکھا ” یونیورسٹی کے فیصلے سے عیسائیت کو یونیورسٹی سے خارج کرنے والی بات ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی میں قائم گرجا گھر میں مسیحیوں کے علاوہ ہندو اور بدھ طلبہ کو بھی عبادت کی اجازت ہے۔
ایسوسی ایٹ ڈین کرسٹی لوہر ساپ نے کہا اذان کا منصوبہ منسوخ ہونے سے پہلے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یونیورسٹی میں ایک سے زائد مذاہب کے ساتھ کمٹمنٹ رکھتی ہے۔ ڈیوک یونیورسٹی نامی اس نجی تعلیمی ادارے میں سات سو مسلمان طلبہ زیر تعلیم ہیں۔
دوہزار نو میں مسلمانوں کے لیے ایک امام مسجد کی خدمات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ جبکہ دو سال پہلے مسلمان طلبہ کو گرجا گھر کے تہہ خانے میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔