آکسفیم کے سربراہ کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر صرف امیر غریب کی خلیج پر بات ہو رہی اسے کم کرنے کی سمت کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے
عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کا کہنا ہے کہ دنیا کے ایک فیصد امیر لوگوں کے پاس آئندہ برس تک دنیا کے بقیہ 99 فیصد لوگوں سے زیادہ اثاثے ہوں گے۔
اس ہفتے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے عالمی معاشی فورم کے اجلاس سے قبل یہ بات سامنے آئي ہے اور فلاحی ادارے نے امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے عدم مساوات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔
ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر ایک فیصد امیر لوگوں کی املاک میں سنہ 2009 میں 44 فیصد اضافہ ہوا تھا جو کہ گذشتہ سال بڑھ کر 48 فیصد ہو گيا یعنی کہ ہر ایک کے لیے اوسطا 2
7 لاکھ ڈالر کا اضافہ ہوا۔
اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کے پاس دنیا کی دولت کا صرف ساڑھے پانچ فیصد حصہ ہے۔
ایک بے گھر کے سامنے سے ایک تاجر کو گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے
آکسفیم انٹرنیشنل کے ايگزیکٹیو ڈائرکٹر وینی باینییما نے کہا: ’کیا واقعی ہم ایسی دنیا میں رہنا چاہیں گے جہاں ایک فیصد لوگوں کے پاس باقی تمام سے مجموعی طور پر زیادہ ہو؟ عالمی سطح پر عدم مساوات ہے اور اسے عالمی ایجنڈا بنانے کے بجائے امیر اور غریب کے درمیان کی خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گذشتہ 12 مہینوں سے صدر اوباما سے لے کر کرسٹین لیگارڈے امیر اور غریب کے درمیان عدم مساوات کے مسئلے سے نمٹنے کی بات کر رہے ہیں تاہم ہم ابھی تک اس جانب کوئی پیش رفت نہیں دیکھ رہے ہیں۔
امیر اور غریب کے درمیان روز افزوں خلیج پر توجہ مبذول کرانے کے لیے یہ رپورٹ منظر عام پر آئی ہے
’یہی وقت ہے کہ ہمارے رہنما بااقتدار لوگوں کے مفادات پر قدغن لگائیں جو کہ زیادہ منصفانہ اور زیادہ خوشحال دنیا کے درمیان کھڑے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امرا طبقے کے لیے تجارت ابھی بھی مفت نہیں ہے اور عدم مساوات کو کم کرنے میں ناکامی غریبی کے خلاف جنگ کو کئی دہائی پیچھے لے جائے گی۔ اور عدم مساوات میں اضافے کے نتیجے میں غریب دوہرے طور پر متاثر ہوں گے۔ ایک یہ کہ انھیں معاشی لڈو میں کم حصہ ملے گا اور اس سے ترقی کو نقصان پہنچے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ بانٹنے کے لیے لڈو ہی کم ہوں گے۔‘