اسلام آباد، 27 نومبر:پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اس ہفتہ ملک کے نئے فوجی سربراہ کی تقرری کریں گے۔ اگر اس بار سب کچھ ٹھیک رہا تو ہوسکتا ہیکہ فوجی سربراہوں کے ذریعہ پاکستان میں منتخب حکومت کو بے دخل کرنے کی جو روایت رہتی ہے، اس پر روک لگ جائے۔اپنی سابقہ میعاد کار کے دوران مسٹر شریف نے پرویز مشرف کو فوجی سربراہ بنایا تھا اور جنرل مشرف نے ہی انہیں بے دخل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا، جس کی وجہ سے مسٹر شریف کو نہ صرف اپنی برطرفی کا صدمہ جھیلنا پڑا بلکہ وہ تقریباً ایک دہائی تک اقتدار سے دور بھی رہے تھے۔ایسی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ اس بار مسٹر شریف کسی طرح کی غلطی کے امکانات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرکے اس عہدے کیلئے غالباً کسی ایسے شخص کا انتخاب کریں گے جو فوج کیلئے اگر بہت اچھا نہ بھی ہو لیکن ان کیلئے کسی طرح کا خطرہ پیدا کرنے والا نہ ہو۔ اس کے ساتھ ہی اس عہدہ کیلئے ایسے شخص کے انتخاب کا بھی زیادہ امکان ہے جو کسی خاص لیڈر کی طرح کام کرنے کی بجائیآئین کے مطابق کام کرے۔
پاکستان میں فوجی سربراہ کا عہدہ ملک کا سب سے زیادہ سرخیوں میں رہنے والا اور بااثر عہدہ مانا جاتا ہے۔ اس بات پر بھی ملک و بیرون ملک میں بڑا تجسس ہے کہ موجودہ جنرل اشفاق کیانی کا جانشین کون بنے گا۔ملک کے فوجی سربراہ کے عہدے پر تقرری کے لئے تین فوجی جنرلوں لفٹیننٹ جنرل ہارون اسلم ، طارق خان اور راشد محمود کے درمیان سخت مقابلہ سمجھا جارہا ہے۔ان تینوں میں جنرل اسلم جنرل کیانی کے بعد سینئر ترین افسر ہیں اس لئے وہ اس عہدے کے فطری امیدوار ہیں۔دوسری طرف جنرل خان کے ہاتھ میں نہ صرف پاکستانی فوج کی ایک اہم کور کی کمان ہے بلکہ انہیں امریکہ کے ساتھ بات چیت میں ایک فعال مذاکرات کار مانا جاتا ہے۔ اس عہدے کے تیسرے دعویدار جنرل اسلم تیسرے سینئر جنرل ہیں جو رخصت پذیر جنرل کیانی کے پسندیدہ افسر بھی ہیں۔
جہاں تک جنرل کیانی کا سوال ہے تو انہیں اس بات کا پوراکریڈٹ ملتا ہے کہ انہوں نے اپنی میعاد کار کے دوران فوج کی سیاست میں مداخلت کے امکان کو کافی حد تک قابو میں رکھا۔ اس کے باوجود سیکورٹی اور خارجہ پالیسی میں درپردہ فوجی کا خاصا دخل ہے۔مسٹر نواز شریف بھی اس بات سے واقف ہیں لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ اگلا فوجی سربراہ بھی فوج پر اس طرح کا کنٹرول رکھے گا۔مسٹر شریف اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ بیشتر سینئر فوجی افسران جنرل کیانی کے اس معتدل رویے کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں نئے فوجی سربراہ کی تقرری مسٹر شریف کے لئے کسی سخت امتحان سے کم نہیں ہے۔