اسرائیلی ملکہ حسن کے ساتھ تصاویر کیوں بنوائیں، عوام ناراض
حسن کی اسرائیلی اور لبنانی ملکہ کی موبائل کیمروں سے لی گئی اکٹھی تصاویر کے سوشل میڈیا پر آنے سے مشرق وسطی کی دوطرفہ جنگوں میں لگنے والے زخم ایک مرتبہ پھر تازہ ہو گئے ہیں۔
مقابلہ حسن میں مس لبنان اور مس اسرائیل کے مرتبے پر فائز ہونے والی ان دونوں حسیناوں کی یہ آگ بھڑکا دینے نے والی تصاویر اسی ہفتے سامنے آئی ہیں۔ ان حسن کی دیویوں نے لبنانی عوام کا دل لبھانے کے بجائے غم و غصے کی ایک لہر کو جنم دیا ہے اور میڈیا میں لبنان کی ملکہ حسن کے حوالے سے ایک سکینڈل
سا سامنے آ گیا ہے۔
ان تصاویر میں مس لبنان سیلی گریج اور اسرائیلی ملکہ حسن ساتھ ساتھ کھڑی ہیں۔ اس وجہ سے مس لبنا سیلی کے لیے ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔
واضح رہے لبنان اور اسرائیل باہم حریف ہیں اور دو طرف مراسم کو غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ دوہزار چھ میں اسرائیل اور لبنانی شیعہ ملیشیا کے درمیان کے ایک خونریز جنگ بھی ہو چکی ہے۔
اس جنگ کے دوران بارہ سو سے زائد لبنانی مارے گئے جبکہ ایک سو ساتح اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ سوشل میڈیا پر دونوں ملکوں کی حسیناوں کی تصاویر دیکھنے والوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ لبنانی ملکہ حسن اسرائیلی ملکہ حس کے ساتھ حس کا رشتہ جوڑ کر اور تصاویر بنوانے سے اپنا ٹائٹل کھو چکی ہیں۔ تاہم مس لبنا کا موقف ہے کہ مس اسرائیل نے ایک طرح سے زبردستی جمٹ کر کے یہ تصاویر بنائیں اور بعد ازاں انہیں اپ لوڈ کر دیا۔
مس لبنان کے مطابق جب میں ملکہ عالم کے لیے مقابلے میں شرکت کے لیے گئی تو پہلے ہی دن سے تو میں اسرائلی مد مقابل سے بہت محتاط اور دور رہنے کی کوشش میں رہی، میری کوشش تھی کہ اس کے ساتھ میری کوئی تصویر نہ بنے۔”
مس لبنان نے مزید کہا ” لیکن اس کی بار بار یہ کوشش رہی کہ وہ میرے ساتھ تصویر نہ بنائے، جب میں مس جاپان اور مس سلووینیا کے ساتھ تیاری میں مصروف تھی تو مس اسرائیل اچانک آ دھمکی اور اپنے فون سے میرے ساتھ تصاویر بنانے لگی، بعد ازاں اس نے ان تصاویر کو اس نے سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ کر دیا۔”
دوسری جانب مس اسرائیل ماٹالون نے این بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے ” میں تبدیلی کی امید کرتی ہوں، امن کی تمنا رکھتی ہوں، کم از تین ہفتوں کے لیے میرے اور مس لبنان کے درمیان ہی امن ہونا چاہیے۔”
مس اسرائیل نے کہا ” جس چیز کو ہمیں بھولنا نہیں چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنے ملکوں اور عوام کی نمائندگی کرتی ہیں حکومت اور سیاست دانوں کی نہیں، اس لیے ہمیں سیاسی تنازعات میں نہیں پڑنا چاہیے۔”