صنعا کے بڑے علاقے پر اس وقت حوثی قبائل کا قبضہ ہے لیکن صدرارتی محل پر ان کا کنٹرول نہیں تھا
یمن میں شیعہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا میں صدر عبدالربوہ منصور ہادی کی رہائش گاہ پر گولہ باری کی ہے۔
منگل کو ہونے والی گولہ باری کے وقت صدر ہادی رہائش گاہ میں موجود تھے لیکن اطلاعات کے مطابق وہ اس حملے میں محفوظ رہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس حملے کی مذمت کی ہے اور باغیوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے قانونی حکمرانوں کا احترام کریں۔
تاہم باغیوں کے رہنما عبدالملک الحوثی نے یمنی رہنماؤں پر بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ملک ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔
صدر ہادی کی رہائش گاہ پر گولہ باری سے قبل حوثی باغیوں نے دارالحکومت کے ایک اور علاقے میں واقع صدارتی محل پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔
صدارتی محل کی حفاظت پر مامور فورس کے کمانڈر کرنل صالح الجمالانی نے اسے تختہ الٹنے کے مترداف قرار دیا ہے۔
یمن کو القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ وہ گذشتہ کئی ماہ سے خانہ جنگی اور افراتفری کا شکار ہے۔
باغیوں کے رہنما نے صدر ہادی اور ان کے ساتھیوں پر اپنے مفادات کو عوامی مفاد پر ترجیح دینے کا الزام لگایا
صنعا کے بڑے علاقے پر اس وقت حوثی قبائل کا قبضہ ہے لیکن صدرارتی محل پر ان کا کنٹرول نہیں تھا۔
یمن کے وزیرِ اطلاعات نادی السخاف نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ صدر کی رہائش گاہ پر قریبی مکانات کی چھتوں پر موجود مسلح فوج کی جانب سے شدید گولہ باری کی گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق گولہ باری کا سلسلہ نصف گھنٹے تک جاری رہا جبکہ ایک یمنی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’صدر عمارت کے اندر ہیں مگر محفوظ ہیں۔‘
حوثی قبائلی سال 2004 سے سعودی عرب سے متصل صوبہ سادا میں زیادہ خودمختاری کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔
ان کے رہنما عبدالملک حوثی نے منگل کو ٹی وی پر براہِ راست نشر کی جانے والی تقریر میں کہا کہ صدر ہادی اور ان کے ساتھی اپنے مفادات کو عوامی مفاد پر ترجیح دے رہے ہیں۔
انھوں نے ملک کی سیاسی قیادت پر بدعنوانی میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’قوم ایک المناک صورتحال اور مکمل تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تمام سیاسی، معاشی اور سکیورٹی تمام محاذوں پر حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔‘
یمنی صدر عبدالربوہ منصور ہادی صدارتی محل کی بجائے صنعا کے ایک اور علاقے میں مقیم ہیں
گذشتہ سال ستمبر میں شیعہ حوثی باغیوں اور سنّی شدت پسندوں کے درمیان لڑائی میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں کے بعد باغیوں اور حکومت نے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
حوثی قبائل کو حکومت سے معاہدے کی تحت صنعا سے پیچھے ہٹنا تھا لیکن انھوں نے اس کی بجائے دارالحکومت کے سنّی علاقوں میں اور مغربی یمن میں اپنے دائرہ کار اور کنٹرول کو مزید وسعت دے دی۔
جزیرہ نما عرب میں برسرپیکار القاعدہ نے جہاں گذشتہ چار سالوں میں یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کو اقتدار سے ہٹانے کی احتجاجی تحریک سے پیدا ہونے والی بےچینی اور افراتفری کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے، وہیں حوثی قبائل کی طرف سے بھی موجودہ صدر ہادی کی حکومت کو مزاحمت کا سامنا ہے۔