جے پور ’22 جنوری (یو این آئی) نامور شاعر اور فلمی نغمہ نگارجاوید اختر نے آج کل بالی وڈ کے فلموں کے گانوں میں فحاشی پر شدید تنقید کرتے ہوئے دانشور وں او رسماج کے دیگر طبقا ت پر زور دیا کہ وہ اس معاملہ کو شدت کے ساتھ اٹھائے ۔جاوید اختر یہاں جے پور لٹریچر فیسٹول کے اجلاس سے خطا ب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ’آج کے زمانے میں گانوں میں بے حد فحاشی ہے ۔ جب آپ کسی چیز کے غیر قانونی ہونے پر احتجاج کر سکتے ہیں تو فحاشی کے خلاف ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟جاوید اختر نے کل فیسٹول کے پہلے دن کے ایک سیشن ’گاتا جائے بنجارا‘ فلمی گانے ، اردو، ہندی ، ہندوستانی‘’” میں گفتگو کے دوران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گانوں کے بول میں آنے والی تبدیلیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج کل کے گانوں میں ‘اچھائی کا عنصر’ موجود نہیں، اور یہی عنصر دہائیوں تک صدا بہار رہنے والے گیتوں کی ایک وجہ ہے ۔جاویداختر نے کہا کہ لفظ کسی بھی گانے کی جان ہوتے ہیں اور یہی حتمی
بات ہے ۔ صرف اچھے لکھے ہوئے گانے ہی یاد رہتے ہیں ‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ‘ماضی میں ایک عام آدمی موسیقی اور گانوں سے زندگی کا فلسفہ سیکھتا تھا۔ پہلے سمجھ بوجھ والے گانے ہوتے تھے ۔ ان میں سماجی انصاف اور انسانی اقدار کا عنصر ہوتا ہے لیکن اب یہ عنصر کہیں کھو گیا ہے اور بہت افسوس کی بات ہے کہ کوئی اس حوالے سے سوچتا نہیں‘۔انہوں نے 1993 کی بالی وڈ فلم کھل نائک ‘’ کے مشہور گانے ‘’چولی کے پیچھے کیا ہے ‘’ اور دوسرے گانوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے حد دباؤ کے باوجود کبھی بھی ایسے بول نہیں لکھ سکتے ۔جاوید نے سیشن میں موجود حاضرین پر زور دیا کہ وہ فحاشی کے خلاف آواز اٹھا ئیں۔انہِو ں نے ہندوستانی فلمی صنعت کا پاکستان سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں غزل اور دوسری ثقافتی موسیقی مسلسل فروغ پا رہی ہے ۔جاوید کے مطابق فلم بینوں اور جارحانہ مارکیٹنگ کی وجہ سے گانا مشہور ہو جاتا ہے ۔ مارکیٹنگ والے ہمیں ایسے گانے لکھنے کو کہتے ہیں جو عوام کو پسند آئیں۔ لیکن اگر لوگ ایسے گانوں کو مسترد کر دیں تو وہ اچھے گانے بنانے پر مجبور ہو جا ئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ‘آج جارحانہ مارکیٹنگ اور بھڑکیلی وڈیو کی وجہ سے گانا سنا نہیں بلکہ دیکھا جاتا ہے ‘’۔انہوں نے افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ آج کی فلموں میں آئٹم گانے ترجیح بن چکے ہیں اور روایتی گانے زوال پذیر ہیں۔‘‘آج کل کے گانوں میں کردار اور صورتحال میں کوئی جذباتی گہرائی نہیں لہذا اب اگر شاعر کوشش بھی کرے تو اچھے اور جذباتی بولوں کی گنجائش نہیں بچی ’’۔انہوں نے گوکہ اس بات کا اعتراف کیا کہ انڈیا میں ٹیلنٹ کا کوئی قحط نہیں تاہم کہا کہ اب ادب، شاعری، فن اور ثقافتی موسیقی لوگوں کی ترجیح نہیں رہی ‘’۔