ریاض ۔ سعودی عرب کے فرمانروا اور خادم الحرمین الشریفین علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انہوں نے اگست سنہ 2005ء میں زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ عمرکے آخری عرصے میں وہ زیاد ترعلیل رہنے لگے تھے۔ گذشتہ ماہ دسمبر میں بھی انہیں نمونیا کے بعد ریاض میں شاہ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں علاج کے
لیے داخل کیا گیا تاہم انہیں جلد ہی وہاں سے ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔
شاہ عبداللہ عبدالعزیز کا شمار سعودی عرب کے ان حکمرانوں میں ہو گا جن کے دور حکومت میں ملک نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں غیر معمولی ترقی اور خوش حالی کے نئے باب رقم کیے۔ شاہ عبداللہ کی کامیابیوں کا سلسلہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں۔ معیشت، تعلیم، صحت سوشل ویلفیئر، نقل وحمل، مواصلات، صنعت، بجلی، پانی، زراعت، تعمیرات غرض ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے ماضی کی نبست سعودی عرب کو زیادہ ترقی یافتہ بنا دیا۔ مرحوم نہ صرف اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مشہور تھے بلکہ اس باب میں ان کی شہرت منصوبوں کو ان کے وقت مقررہ سے بھی قبل مکمل کرنے کے حوالے سے رہی۔
ان کے دور حکومت میں سعودی عرب میں تعلیم کے شعبے نے خوب ترقی کی۔ کم وبیش 20 نئی جامعات قائم کی گئیں، درجنوں کی تعداد میں ٹیکینکل اور میڈیکل کالجز کا
قیام، شاہ عبداللہ سائنس وٹیکنالوجی یونیورسٹی، جازان، مدینہ منورہ، حائل اور رابغ شہروں میں شاہ عبداللہ اکنامک سٹی کا قیام بھی انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔
شاہ عبداللہ کی کوشش کے نتیجے میں مملکت میں آج تعلیمی بیداری کی ایک ہمہ جہت تحریک موجود ہے۔ ملک کے طول عرض میں کالجوں اور اسکولوں کا ایک جال بچھا دیا گیا۔ کئی جامعات کے زیر انتظام نئے کالجز قائم کیے گئے اور 701.681 طلباء وطالبات کی تعلیمی ضروریات سے ہم آہنگ نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ کالجوں کے قیام کے ساتھ ساتھ 32 ہزار نئے اسکول قائم کیے گئے جن کے قیام کے بعد سعودی عرب میں اسکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد پانچ ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے قیام سے چار لاکھ چھبیس ہزار مردو خواتین اساتذہ کو روزگار فراہم کیا گیا۔