لکھنؤ(نامہ نگار)وکیل نکھلیندر کے دوسرے دن بھی وکلاء نے زبردست مظاہرہ و ہنگامہ کیا۔ صبح کچہری کھلتے ہی وکیلوں نے عدالت کا کام بند کر دیا اور کمشنر دفتر کے سامنے مظاہرہ کرنے لگے۔ مشتعل وکیل پولیس اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ مظاہرہ کے پیش نظر پولیس نے کمشنر دفتر کے سامنے گاڑیوںکی آمدورفت کو پوری طرح سے بند کر دیا۔ اس کے بعد وکلاء کا ہجوم نعرے بازی کرتا ہوا حضرت گنج چوراہے تک پہنچ گیا۔ مظاہرہ کے سبب حضرت گنج کی سبھی دکانیں بند ہوگئیں اور ٹریفک نظام درہم برہم ہوگیا۔ وکیل اپنے مطالبات کے سلسلہ میں گھنٹوں حضرت گنج چوراہے پر مظاہرہ کرتے رہے سہ پہر تقریباً ۳بجے ضلع مجسٹریٹ سے معاوضہ کا چیک اور ملزمان کی گرفتاری کے بعد مظاہرہ کر رہے وکیل نکھلیندر کی لاش لے کر بھینسا کنڈ پہنچے جہاں اس کے آخری رسوم ادا کر دیئے گئے ۔
نکھلیندر قتل معاملہ میں پی جی آئی پولیس نے محلہ کے رہنے والے راکیش راوت اور اس کے برادر نسبتی کانپور کے روہت راوت کو گرفتار کر لیا ہے پولیس کا کہنا ہے کہ کچھ ماہ قبل فریقین کے درمیان معمولی مارپیٹ ہوئی تھی۔ اس کے بعد اکتوبر میںپھر نکھلیندر اور راکیش کے درمیان مارپیٹ ہوئی۔ اس معاملہ میں دونوں طرف سے ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی تھی۔پولیس اکتوبر میں ہوئی مارپیٹ کی واردات کو قتل کا سبب مان رہی ہے۔ اسی بنیاد پر پولیس نے راکیش اور روہت کو گرفتار کیا ہے۔ فی الحال پولیس دونوں سے پوچھ گچھ کر رہی ہے ملزم راکیش راوت بینک ملازم ہے اور اس کی کچھ گاڑیاں بھی بینک میں چلتی ہیں۔
جمعرات کی صبح کچہری کھلتے ہی ناراض وکیلوںنے متوفی وکیل کے کنبہ کو ۲۰لاکھ روپئے معاوضہ بیوی کو سرکاری ملازمت اور قاتلوں کی جلد گرفتاری کے مطالبہ کے سلسلہ میں کمشنر دفتر کے سامنے مظاہرہ شروع کر دیا۔ موقع پر ایس پی مغرب، ایس پی ماڈرن کنٹرول روم سمیت بڑی تعداد میںفورس پہنچ گئی۔ کمشنر دفتر کے نزدیک مظاہرہ کر رہے وکیلوں کا کچھ میڈیا اہلکاروں سے بھی تنازعہ ہو ا۔
الزام ہے کہ میڈیا اہلکاروں سے مارپیٹ بھی کی گئی۔
وہیں سواستھ بھون چوراہے کے نزدیک مشتعل وکیلوں نے ایک روڈویز بس کے شیشے تک توڑ ڈالے۔ دوپہر بارہ بجے تک سیکڑوں کی تعداد میں وکیل سڑک پر اتر آئے تھے۔ اس کے بعد وکیلوں کا ہجوم حضرت گنج کی طرف روانہ ہوا جہاں پہلے سے ہی ڈی آئی جی آر کے چترویدی پولیس فورس کے ساتھ موجود تھے۔ انہوں نے وکیلوں کو روک لیا ۔ وکیل چوراہے پر ہی مظاہرہ کرنے لگے۔ جس سے پورا ٹریفک نظام درہم برہم ہو گیا۔
کچھ ہی دیر میں ایس ایس پی یشسوی یادو ، ضلع مجسٹریٹ راج شیکھر بھی موقع پرپہنچ گئے اس کے بعد ضلع مجسٹریٹ نے مظاہرہ کررہے وکیلوں سے بات چیت شروع کی مظاہرین متوفی کے کنبہ کو ۲۰لاکھ روپئے معاوضہ، سرکاری ملازمت اورملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے۔ ضلع مجسٹریٹ نے ان کو بتایا کہ متوفی کے کنبہ کو دو لاکھ روپئے کا چیک دے دیا گیا ہے کچھ ہی دیر میں تین لاکھ روپئے کا دوسرا چیک بھی کنبہ کو مل جائے گا۔ انہوںنے بتایا کہ وکیل کے قتل معاملہ میں دو ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس کے علاوہ وکیل کی بیوی کو سرکاری ملازمت کیلئے حکومت سے بات کی جائے گی۔ افسران سے ملی یقین دہانی کے بعد مظاہرہ ختم ہوا۔
ٹریفک کے بیریئروں پر پھوٹا غصہ
سیکڑوں کی تعداد میں وکیل جب نعرے بازی کرتے ہوئے حضرت گنج چوراہے کی طرف بڑھے تو ان کا غصہ شباب پرتھا۔ حضرت گنج چوراہے کے درمیان ٹریفک پولیس کے لگائے گئے لوہے اور پلاسٹک کے بیریئروںکو لات مارکر گراتے ہوئے وکیل نظر آئے۔ حضرت گنج علاقہ میں وکیلوں کی یہ شکل دیکھ کر پولیس کے افسر حیران رہ گئے۔کسی نے ان کو روکنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ سڑک پر بکھرے پڑے بیریئر دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی طوفان آیا ہو اور بیریئروںکو اکھاڑ کر پھینک دیا ہو۔ وکیلوں کے اس مظاہرہ کے دوران کئی راہگیروںکو بھی ان کی بدسلوکی کا شکار ہونا پڑا۔ کمشنر دفتر ، پریورتن چوک، ضلع مجسٹریٹ کی قیام گاہ اور حضرت گنج چوراہے پر کچھ مشتعل وکلاء نے راہگیروںکے ساتھ ہاتھاپائی اور گالی گلوچ بھی کی۔