عمر رسیدہ شاہ سلمان طاقتور مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا خطرہ نہیں مول لیں گے
سعودی عرب کے نئے بادشاہ سلمان نے بادشاہت سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہی مائیکرو بلاگنگ کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان جاری کیا کہ ’اللہ میری مدد کرے، سکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے میں، اور سلطنت کی تمام برائیوں سے حفاظت
کرنے میں۔‘
معمول کے واقعات کے تناظر میں اس ٹویٹ کو ایک عام بیان سمجھ کر نظرانداز کیا جا سکتا تھا لیکن اس موقعے پر نئے بادشاہ کی ترجیحات کے بارے میں اندازہ ہوتا ہے۔
اس وقت سعودی عرب اندرونی اور بیرونی طور پر کئی مشکلات کے گھیرے میں ہے۔
اس حساس وقت میں سعودی شاہی خاندان کو جانشینی کے مشکل عمل کا سامنا ہے۔اس کو غیر معمولی رفتار سے کئی ممکنہ فتنہ ساز مسائل سے نمٹنا ہو گا۔ ان میں ایک اس وقت حل ہو گا جبکہ نئے بادشاہ نے فوری ہی اپنے سوتیلے بھائی شہزادہ مقرن کو ولی عہد مقرر کر دیا۔
اس سے پہلے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر یہ افواہیں گردش کی رہی تھیں کہ ممکنہ طور پر بادشاہ سلمان ولی عہد کے لیے اپنے سگے بھائی احمد کو شہزادہ مقرن پر ترجیح دے سکتے ہیں۔
اس کے بعد نیا نائب ولی عہد مقرر کرنے کا اعلان سامنے آیا۔ نائب ولی عہد وزیر داخلہ محمد بن نائف کو مقرر کیا گیا ہے اور یہ شہزادوں کے نئی نسل کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے تخت تک جانے والی سیڑھی پر قدم رکھا ہے۔
توقعات یہ تھیں کہ ایک اختلافی فیصلے کو جتنا ممکن ہو سکے گا روکا جائے گا لیکن اچانک ہی نئی نسل کے شہزادوں میں ایک کو یہ اعزاز دینے کا اعلان کر دیا گیا۔
واضح ہے کہ رونما ہونے والے واقعات سے تمام سینیئر سعودی خوش نہیں ہوں گے۔ اس میں شہزادہ احمد کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ وہ اب بادشاہ نہیں بن سکتے ہیں۔
انتقال کرنے والے بادشاہ کے بیٹے کو ڈپٹی ولی عہد کے طور پر پسندیدہ قرار دیا جا رہا تھا اور ان میں سے نیشنل گارڈ کے سربراہ شہزادہ متعب کا نام زیادہ لیا جا رہا تھا۔
تاہم ال سعود خاندان میں اختلافات کو نجی طور پر ہی حل کیا جاتا رہے گا اور خاندان کی یکجہتی کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا کیونکہ اس سے سلطنت کے استحکام کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
شدت پسندی کا مسئلہ
اس وقت سعودی عرب کی سرحد پر دولتِ اسلامیہ تو دوسری پر القاعدہ اور شیعہ باغی موجود ہیں
بادشاہ سلمان کی اولین ترجیح ملک میں سکیورٹی کی صورتحال کو قائم رکھنا ہے۔ اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان سعودی شہری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے لیے لڑ رہے ہیں اور اس کے شدت پسند نظریات کے ساتھ واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔
ان نوجوانوں کو سعودی عرب کے اندر حملوں سے باز رکھنے کی پالیسی کے تحت اسلامی رہنماؤں اور پڑھانے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کی ایک موثر حکمت عملی اختیار کرنا پڑے گا کہ وہ نوجوان سعودیوں کو دولت اسلامیہ کے نظریات کے خطرات سے آگاہ اور متنبہ کریں۔
ہو سکتا ہے کہ اس عمل کے تحت شاہ عبداللہ کے برعکس بادشاہ سلمان خطے کے تنازعات میں مداخلت کرنے پر قدرے کم مائل ہوں۔جبکہ سعودی عرب نے شام کی حزب اختلاف کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے، مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اب سعودی عرب ماضی کے برعکس زیادہ گنجائش دے، جس میں شام میں صدر بشار الاسد کے چند ساتھیوں کے حکومت میں رہتے ہوئے وہاں اقتدار کی منتقلی جیسے اقدامات شامل ہیں۔
عراق کے معاملے میں بادشاہ سلمان دولتِ اسلامیہ کے خلاف اتحاد پر قائم رہیں گے لیکن اپنے پیشرو عبداللہ کی طرح وہاں زمینی فوج نہ بھیجنے کے فیصلے پر قائم رہیں گے کیونکہ سعودی رہنماؤں کی رائے کے مطابق ملکی فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ یمن سے متصل جنوبی سرحدوں پر اضافی فوج بھیجی جائے جہاں حالیہ دنوں شیعہ حوثی قبائل نے تیزی سے پیش قدمی کی ہے اور مبینہ طور پر انھیں ایران کی حمایت حاصل ہے۔ یمن میں سعودی عرب کو اس کی حمایت یافتہ حکومت کے بارے میں پائی جانے والی تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ یمن میں موجودہ القاعدہ بھی ایک بڑے خطرے کے طور پر موجود رہے گی۔
حقوق انسانی کی صورتحال اور تیل کی پالیسی
خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت ایک سرپرائز ہو سکتا ہے
بادشاہ کے اندرونی طور پر درپیش مسائل میں سے ایک حقوق انسانی ہیں اور توقع ہے کہ ان کے بارے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ وہ اپنے پیشرو کے برعکس سماجی اصلاحات کرنے کے زیادہ حامی نہیں ہیں۔
اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ اپنے پیشرو عبداللہ کے اقدامات کو واپس لیں گے، ان کے دور میں ایک حیران کن اقدام ہو گا اگر خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت مل جاتی ہے۔
تاہم ان سماجی اصلاحات کے بارے میں پالیسی میں کسی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا رہی ہے جن پر حقوق انسانی کی تنظیموں اکثر اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتی ہیں۔
عمررسیدہ بادشاہ سلمان سلطنت کی طاقتور مذہبی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے ہیں تاہم وہ مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو قائل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ سماجی اصلاحات کے لیے درکار ضروری تبدیلیوں کے لیے مذہبی قوانین میں ترامیم کی جائیں۔
اس کے علاوہ سلطنت کی تیل کے بارے میں پالیسی پر سوالیہ نشان موجود رہے گا۔
کیا سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کٹوتی نہ کرنے کی متنازع پالیسی کو جاری رکھے گا جس کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔
پیٹرولیم کی وزارتِ پر علی نائمی کو برقرار رکنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ موجودہ پالیسی ہی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کم قیمتوں کو برداشت کر سکتے ہیں جس میں امریکہ میں شیل پیٹرول کی صعنت کے لیے مشکل حالات پیدا کرنے ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے اوپیک کی مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔
کچھ بڑی تبدیلیاں اور سرپرائز سامنے آ سکتے ہیں لیکن نئے بادشاہ کی ٹویٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب میں ان کی بادشاہت کے دوران زیادہ تر معاملات پہلے کی طرح ہی اس وقت تک چلتے رہیں جب تک سعودی قیادت سلطنت کو تمام برائیوں سے بچانے میں کامیاب رہتی ہے۔