یہ کتاب سنہ 1920 کی دہائی میں تصنیف کی گئ تھی
جرمنی میں مصنف کی موت کے 70 سال بعد کسی کتاب کا کاپی رائٹ ختم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد کسی کے بھی پاس اشاعت کا حق ہوتا ہے۔
جرمنی کے رہنما اڈولف ہٹلر نے سنہ 1945 میں خود کشی کی تھی اس طرح رواں سال کے آخر میں ان کی سوانح ’مائن کیمف‘ پر سے بھی حق اشاعت کی پابندی
ختم ہوتی ہے۔
بی بی سی ریڈیو فور کے ایک پروگرام میں اس موضوع پر تفصیلی بحث ہوئی ہے۔ سنہ 1936 میں مائن كیمف کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے جم مرفی کے پوتے جان مرفی کہتے ہیں ’ہٹلر کی تاریخ انھیں کمتر بتانے کی تاریخ ہے اور لوگوں نے اس کتاب کو کمتر کے درجے میں ہی شمار کیا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیونکہ اس کے غلط معنی اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ ہٹلر نے سنہ 1920 کی دہائی میں لکھی اپنی اس کتاب میں جو کچھ لکھا تھا، اس میں سے کئی اس نے کر کے بھی دکھائیں۔ اگر لوگوں نے اس کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہوتا تو وہ خطرے کی قبل از وقت نشاندہی کر سکتے تھے۔‘
کتاب میں نسلی منافرت کی باتیں بھی ہیں
سنہ 1923 میں ’بیئر ہال‘ کی حکومت گرانے کی ناکام کوشش کے بعد ہٹلر کو بغاوت کے الزام میں ميونخ کی ایک جیل میں رکھا گیا تھا اور یہیں انھوں نے سوانح عمری لکھی تھی۔
سوانح عمری میں انھوں نے اپنے نسلی اور یہودی مخالف خیالات کا اظہار کیا تھا۔
ایک دہائی بعد جب ہٹلر اقتدار میں آئے تو یہ ایک اہم نازی کتاب بن گئی اور اس کی ایک کروڑ 20 لاکھ کاپیاں شائع کی گئیں۔
حکومت اس کتاب کو نئے عروسی جوڑوں کو تحفتاً پیش کرتی تھی۔ یہی نہیں، اس کتاب کو تمام سینیئر افسر اپنے گھروں میں رکھتے تھے۔
سنہ 1936 میں اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ہوا شائع ہوا تھا
دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر امریکی فوج نے جب نازيوں کے ناشر ایہر ورلاگ کو پکڑ لیا تو مائن كیمف کے سارے حقوق بویريا سٹیٹ کے پاس چلے گئے۔
بویریا سٹیٹ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جرمنی میں اس کتاب کا نئی اشاعت بعض مخصوص حالات میں ہی ہو۔
یہاں سوال یہ ہے کہ سنہ 2015 میں جب اس کتاب سے کاپی رائٹ ختم ہوگا تو اس کی اشاعت کس طرح رک پائے گی؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کیا واقعی سب اسے شائع کرنا چاہیں گے؟ نیو ياركر اخبار کے مطابق: ’یہ کتاب بڑے بڑے ادق الفاظ سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں تاریخ کی باریکیوں کا خیال نہیں رکھا گیا ہے اور یہ نظریاتی پیچیدگیوں سے بھری پڑی ہے۔ نيؤ نازی اور سنجیدہ دونوں قسم کے تاریخ داں اس سے گریز کرتے ہیں۔‘
تاہم یہ کتاب بھارت میں مقبول ہے، بطور خاص ہندو قوم پرستانہ رجحان رکھنے والے سیاستدانوں میں۔
مین كیمف کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے جیم مرفي کے پوتے جان مرفي کہتے ہیں کہ ہٹلر کی تاریخ انھیں کمتر بتانے کی تاریخ ہے اور لوگوں نے اس کتاب کو کمتر کے درجے میں ہی شمار کیا ہے
مانچسٹر یونیورسٹی کے اترائی سین نے ریڈیو فور پر کہا ’اسے اہم سیلف ہیلپ (خود اکتسابی) کتاب تصور کیا جاتا ہے۔ اگر آپ اس میں سے یہودی مخالف حصہ نکال دیں تو، یہ کتاب ایسے عام آدمی کی کہانی ہے جو قید میں ہے اور دنیا کو فتح کرنے کا خواب دیکھتا ہے اور اپنے خواب کی تکمیل کی کوشش کرتا ہے۔‘
بویريا سٹیٹ کے تعلیم اور ثقافت کی وزارت کے ترجمان لدوگ اونگر کہتے ہیں ’اسی کتاب کا اثر تھا کہ لاکھوں لوگ مارے گئے، لاکھوں پریشان ہوئے، پورا خطہ جنگ کی زد میں آ گیا۔ اسے بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا اور آپ ایسا تب کر سکتے ہیں جب آپ کتاب کے کچھ حصوں کو مناسب تاریخی تبصرے کے ساتھ پڑھیں۔‘
کاپی رائٹ ختم ہونے کے بعد میونخ کے انسٹی ٹيوٹ آف كانٹمپوریری ہسٹری اس کتاب کا نیا ورژن جاری کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس میں کتاب کے اصل متن کے ساتھ اشاریے بھی ہوں گے جو حزب کیے جانے اور سچ کی غلط پیش کش کی نشاندہی کریں گی۔
نازی حکومت کے شکار لوگوں نے اس کی مخالفت کی ہے اور بویريا حکومت نے بھی انسٹی ٹیوٹ کو سپورٹ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
کتاب پر پابندی عائد کرنا شاید بہترین پالیسی نہ ہو۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق ’نئی نسل کو اگر نازی نظریے سے بچانا ہے تو اس کا سب سے بہتر طریقہ ہٹلر کے قول کی کھلی مخالفت کرنی ہوگی نہ کہ اس کے قول کو قانون کی مدد سے دبا کر رکھنا۔‘
بھارت میں بعض حلقوں میں یہ کتاب خاصی اہمیت کی حامل ہے
جان مرفی بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا بھر میں کتاب پر پابندی عائد کرنا ممکن نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں ’بویریا حکومت کو اس پر کنٹرول برقرار رکھنے کے بجائے اپنا موقف سامنے رکھنا چاہیے۔ انھیں اپنا مدعا بیان کرنا چاہیے کیونکہ جدید دور میں کتاب حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔‘
ریڈيو پروگرام ’پبلش اور برن‘ کے میزبان کرس بالبی کہتے ہیں کہ علامتی کارروائی اب بھی موثر ہوگی۔
کاپی رائٹ ختم ہونے کے بعد بویریا حکومت کا یہ منصوبہ ہے کہ اس معاملے میں نسلی نفرت کو فروغ دینے کے خلاف قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
لدوگ انگر کہتے ہیں ’ہمارے خیال سے ہٹلر کے نظریے نسلی منافرت پھیلانے کی دفعات کے تحت آتے ہیں۔ غلط ہاتھوں میں یہ کتاب خطرناک ہے۔‘